امام محمد بن حسن شیبانی  … حالات وواقعات

idara letterhead universal2c

امام محمد بن حسن شیبانی … حالات وواقعات

مولانا عصمت الله نظامانی

امام ابوحنیفہ کے تلمیذِ رشید اور مذہبِ حنفی کے مدون اول امام محمد بن حسن شیبانی کی علمی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔اللہ تعالیٰ نے انہیں بے شمار اوصاف حمیدہ سے نوازا تھا، ایک طرف وہ ذہین، حاضر جواب اور بے دار مغز فقیہ تھے تو دوسری طرف دنیا اور اس کی رنگینیوں سے بے نیاز، زہد وتقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، علمِ دین کی راہ میں سب کچھ قربان کردیا، سخاوت اور اہل علم کی معاونت کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ امام شافعی جیسے فقیہ بھی ان کی بے طرح تعریف ومدح سرائی کرتے نظر آتے ہیں،ظاہری خوب صورتی اور باطنی حسن دونوں کے جامع تھے اور علم ِفقہ کی تدوین، ترتیب اور کتابت وتحریر میں ان کا ہمسر ملنا مشکل ہے۔ امام محمد بن حسن شیبانی ایک ہستی نہیں، بلکہ پوری علمی انجمن کا نام ہے، جس کے علمی کارہائے نمایاں سے رہتی دنیا تک لوگ مستفید ہوتے رہیں گے۔ ذیل میں انہیں جلیل القدر فقیہ کے حالاتِ زندگی مختصر طور پر قلم بند کیے جارہے ہیں۔

نام ونسب اور ولادت

ان کا مکمل نام ابو عبداللہ محمد بن حسن بن فرقد شیبانی ہے، سن 132ھ کو شہر واسط میں ان کی ولادت ہوئی، پھر ان کے والد انہیں وہاں سے کوفہ لے آئے اور وہیں ان کی پرورش ہوئی۔(مناقب أبي حنیفة وصاحبیہ للذہبی، ص:79، الناشر:لجنة إحیاء المعارف النعمانیة- الہند:1408ھ)

حسن وجمال

امام محمد نہایت حسین وجمیل تھے، بڑے بڑے مشائخ نے ان کی خوب صورتی کا اعتراف کیا ہے، بلکہ امام محمد کے لڑکپن اور نوجوانی کے دور میں اہل علم ان کے ساتھ چلنا بھی نامناسب سمجھتے تھے، مشہور محدث امام وکیع فرماتے ہیں:
کنا نکرہ أن نمشی معہ فی طلب الحدیث؛ لأنہ کان غلاما جمیلاً.

ہم طلبِ حدیث کے لیے امام محمد کے ساتھ چلنا ناپسند کرتے تھے؛ کیوں کہ وہ خوب صورت لڑکے تھے۔
اور امام شافعی فرماتے ہیں

أول ما رأیت محمدا وقد اجتمع النّاس علیہ، فنظرت إلیہ فکان من أحسن النّاس وجہا، ثم نظرت إلی جبینہ فکأنہ عاج، ثم نظرت إلی لباسہ فکان من أحسن النّاس لباساً. (الجواہر المضیة فی طبقات الحنفیة للقرشی:1/526) الناشر: میر محمد کتب خانہ، کراتشی)

پہلی مرتبہ میں نے امام محمد کو دیکھا کہ لوگ ان کے اردگرد جمع تھے، جب میں نے انہیں دیکھا تو وہ لوگوں میں سب سے حسین چہرے والے تھے، پھر میں ان کی پیشانی پر نظر ڈالی تو وہ ہاتھی کے دانت کی طرح سفید تھی، پھر لباس دیکھا تو وہ بھی بہترین تھا۔

اسی وجہ سے جب ان کے والد امام ابوحنیفہ کے پاس امام محمد کو تعلیم دینے کی غرض سے لائے تو امام صاحب نے ان سے امام محمد کا سر منڈانے اور ان کو پرانے کپڑے پہنانے کا کہا؛ تاکہ دوسرے لوگ فتنے میں مبتلا نہ ہوں۔ (الجواہر المضیة فی طبقات الحنفیة للقرشی:1/526)

امام ابوحنیفہ سے پہلی ملاقات

امام محمد کا شمار امام ابوحنیفہ کے مشہور شاگردوں میں ہوتا ہے، ان کی امام ابوحنیفہ سے پہلی ملاقات کا قصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ امام محمد کا گزر ایک مسجد سے ہوا، جہاں امام ابوحنیفہ درس دے رہے تھے، تو وہ دروازے کے پاس کھڑے ہوکر امام صاحب کا درس سننے لگے، وہاں ایک فقہی مسئلہ بیان ہورہا تھا کہ اگر کوئی نابالغ عشاء کی نماز پڑھ کر سوئے اور رات کو عشاء کا وقت ختم ہونے سے پہلے اسے احتلام ہوجائے، تو وہ اس رات کی عشاء کی نماز دوبارہ پڑھے گا۔

اور یہی معاملہ اس رات امام محمد کو پیش ہوا تھا، لہٰذا انہوں نے مسجد میں داخل ہوکر نماز کا اعادہ کیا۔ امام ابوحنیفہ نے انہیں بلاکر پوچھا کہ یہ کون سی نماز پڑھی ہے؟ انہوں نے پورا واقعہ بیان کیا، یہ سن کر امام ابوحنیفہ نے ان سے کہا:

یا غلام، الزم مجلسنا فإنک تفلح.(المبسوط للسرخسی:2/174، الناشر:دار الفکربیروت، 1421ھ/2000م)

ترجمہ:اے بچے!ہماری مجلس کو لازمی اختیار کرو، بے شک تم کام یاب ہوگے۔

ایک ہفتے میں حفظِ قرآن

امام محمد  نہایت قوی استعداد اور عمدہ حافظہ کے مالک تھے، جس کا کچھ اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں تقریباً ایک ہفتہ میں قرآن پاک اچھی طرح حفظ کرلیا، اس کا قصہ یہ ہے کہ امام محمد نے جب امام ابوحنیفہ کی خدمت میں آکر استفادہ کے لیے عرض کیا تو امام ابوحنیفہ نے ان سے دریافت فرمایا کہ قرآن پاک یاد ہے یا نہیں؟ اور چوں کہ امام محمد کو مکمل قرآن یاد نہیں تھا، لہٰذا وہ واپس لوٹ آئے اور ایک ہفتہ کے بعد دوبارہ امام ابوحنیفہ کی مجلس حاضر ہوئے اور بتایا کہ میں نے قرآن پاک مکمل حفظ کرلیا ہے۔(انظر بلوغ الأمانی للکوثری،ص6، الناشر:المکتبة الأزہریة للتراث:1418ھ- 1998م)

امام محمد کا علمی انہماک

امام محمد رحمہ اللہ ہمہ وقت علمی کاموں میں مشغول رہتے تھے اور ایسے امور سے پرہیز کرتے تھے جو ان کے لیے حصولِ علم اور اس کی نشر واشاعت میں رکاوٹ کا باعث بنتے۔ علم کی راہ میں انہوں نے ایسی یکسوئی اختیار کی کہ تاریخ میں اس کی نظیر ملنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔تحصیل علم کا شوق وانہماک اتنا کہ اپنی ذات کو بھی بھلا دیتے تھے، ہر اس چیز سے کنارہ کشی اختیار کی جو علم کے راستے میں سدِّ راہ ہو، چناں چہ امام محمد کے علمی انہماک کے چند واقعات درجِ ذیل ذکر کیے جاتے ہیں:

1…امام محمد نے اپنے اہل وعیال کے نفقہ وغیرہ کے لیے ایک وکیل مقرر کردیا تھا، جو ان کی ضروریات پوری کرتا اور جس چیز کی حاجت ہوتی، انہیں میسر کرتا، تاکہ ان امور میں مشغول ہوکر ذہن منتشر نہ ہو اور یکسوئی کے ساتھ علمی کام کرسکیں، چناں چہ ان کے شاگرد محمد بن سماعہ فرماتے ہیں:
قال محمد بن الحسن لأہلہ: لا تسألونی حاجة من حوائج الدنیا تشغلوا قلبی، وخذوا ما تحتاجون إلیہ من وکیلی فإنہ أقل لہمی، وأفرغ لقلبی․(تاریخ بغداد للخطیب:2/561)

ترجمہ:امام محمد نے اپنے گھروالوں سے کہہ دیا تھا کہ دنیاوی ضروریات میں سے حاجت مجھ سے مت مانگو کہ اس سے میرا دل مشغول ہوجائے گا اور جس چیز کی تمہیں ضرورت ہو وہ میرے وکیل سے لے لو، کیوں کہ یہ میری فکروں کو کم کرے گا اور میرے دل کو زیادہ یکسو رکھے گا۔

2… امام محمد اپنا وقت قیمتی بنانے اور اسے مطالعہ کتب اور تالیف وتصنیف وغیرہ میں صرف کرنے کی خصوصی کوشش کرتے تھے، لہٰذا گھر میں بھی وہ کتابوں کے درمیان گھرے رہتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے، جیساکہ ان کی لختِ جگر بیان فرماتی ہیں:

حدثنی ابن بنت محمد بن الحسن قال:قلت لأمی: صفی ما کان جدی یعمل فی منزلہ؟ قالت:کان واللہ یا بنی، یکون فی ہذا البیت وحولہ الکتب، ما کنت أسمع لہ کلمة غیر أنی کنت أراہ یشیر بحاجبہ وإصبعہ.(فضائل أبی حنیفة وأخبارہ لابن أبی العوام،ص350، الناشر:المکتبة الإمدادیة- مکة المکرمة:1431ھ2010م)

امام محمد کے نواسے نے ایک مرتبہ اپنی والدہ سے کہا:امی!کچھ بیان کیجیے کہ نانا جان اپنے گھر میں کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم اے میرے بیٹے!وہ اس گھر میں ہوتے تھے، چاروں طرف کتابیں رکھی ہوتی تھیں، میں انہیں باتیں کرتے ہوئے نہیں سنتی تھی، بوقتِ ضرورت بھووں یا ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے۔

3… علمی انہماک اس قدر تھا کہ انہیں اپنے آپ کو سنوارنے اور اپنی ظاہری حالت کی طرف نظر کرنے کی بھی فرصت نہیں ہوتی تھی، چناں چہ ان کے شاگرد محمد بن سماعہ فرماتے ہیں:

بلغ شغلہ بالعلم أنہ کان یوسخ لباسہ، ولا یتفرغ لنزعہ.( مناقب الإمام الأعظم للکردری:2/162)

امام محمد کی علم کے ساتھ مشغولیت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ان کے کپڑے میلے ہوجاتے تھے، لیکن انہیں اتار کر دوسرے کپڑے پہننے کی فرصت نہیں ہوتی تھی۔

طلبہ کے ساتھ تعاون

امام محمد کے اعلی صفات میں سے ایک یہ صفت بھی تھی کہ وہ اپنے پاس آئے ہوئے طلبہ کی ضروریات کا خیال رکھتے اور ان کے ساتھ مالی تعاون کرتے رہتے تھے، جیساکہ درج ذیل دو واقعات سے یہ بات پوری طرح واضح ہوگی۔

1… ایک مرتبہ امام محمد کے مشہور شاگرد اسد بن فرات اپنے استاد کے درس میں شریک تھے کہ اتنے میں ایک سبیل کا پانی تقسیم کرنے والا آواز لگاتا ہوا آیا، یہ دوڑ کر وہاں گئے اور پانی پیا، جب واپس آئے تو امام محمد نے انہیں اس پر تنبیہ کی، اس پر انہوں نے بتایا کہ وہ مسافر ہیں، لہٰذا پیاس کی وجہ سے انہیں سبیل کا پانی پینا پڑا۔ پھر وہ فرماتے ہیں:

ثم انصرفت فلما کان عند اللیل إذا أنا بإنسان یدق الباب، فخرجت إلیہ، فإذا خادم محمد بن الحسن فقال: مولای یقرأ علیک السلام ویقول لک:ما علمت أنک ابن سبیل إلا فی یومی، فخذ ہذہ النفقة فاستعن بہا علی حاجتک. ثم دفع إلی صرة ثقیلة فقلت فی نفسی:ہذہ کلہا دراہم، ففرحت بہا، فلما دخلت منزلی فتحتہا فإذا فیہا ثمانون دیناراً.( ریاض النفوس لأبی بکر المالکی:1/258، الناشر: دار الغرب الإسلامی، بیروت- ط1414ھ/ 1994م)

ترجمہ:میں واپس لوٹا، جب رات کا وقت ہوا تو ایک شخص دروازہ کھٹکھٹانے لگا، میں نے باہر نکل کر دیکھا تو وہ امام محمد کا خادم تھا اور کہہ رہا تھا کہ میرے مالک نے آپ کو سلام کہا ہے اور کہا ہے کہ مجھے یہ بات آج ہی معلوم ہوئی ہے کہ آپ مسافر ہیں، لہٰذا یہ کچھ نفقہ لیجیے اور اس کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرنے میں مدد حاصل کیجیے،پھر اس نے ایک بھاری تھیلی مجھے دی، میں نے دل میں کہا کہ یہ سب درہم ہوں گے، لہذا میں خوش ہوا، جب گھر جاکر میں اسے کھولا تو اس میں اسی( 80) دینار تھے۔

2… امام محمد کے امام شافعی کے ساتھ مالی تعاون کرنے کے بارے میں ابو عبید کہتے ہیں:
رأیت الشافعی عند محمد بن الحسن وقد دفع إلیہ خمسین دینارا وقد کان دفع إلیہ قبل ہذا خمسین درہماً. (تاریخ دمشق لابن عساکر:51/296)، الناشر:دار الفکر- بیروت، 1415ھ/ 1885م)

ترجمہ:میں نے امام شافعی کو امام محمد کے پاس دیکھا تھا، امام محمد نے انہیں پچاس دینار دیے تھے اور اس سے پہلے بھی انہوں نے پچاس درہم دیے تھے۔

امام ابو حنیفہ کا دفاع

امام محمد رحمہ اللہ اپنے استاد امام ابوحنیفہ سے بہت محبت کرتے، ان کا احترام کرتے تھے اور مخالفین کے سامنے امام ابوحنیفہ کا عمدہ طریقے سے دفاع کرتے تھے، چناں چہ فقہی مسائل میں جب فقہائے کرام کا اختلاف بیان کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ کا مذہب ذکر کرتے تو اس کے دلائل بھی ذکر کرتے تھے، اگرچہ خود امام محمد کی نظر میں وہ مذہب کم زور ہی کیوں نہ ہو۔چناں چہ ایک جگہ امام ابوحنیفہ اور اہل مدینہ یعنی امام مالک کا مذہب ذکر کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:

قول اہل المدینة فی ہذا أحب إلی من قول أبی حنیفة وإن کنت احتججت لأبی حنیفة بحجة ثابتة لم تر أہل المدینة بمخرج منہا․ (الحجة علی أہل المدینة للإمام محمد الشیبانی:1/128 ، باب متابعة الإمام فی الجلوس والقیام، الناشر:عالم الکتب- بیروت، ط1403ھ)

ترجمہ:اس مسئلہ میں اہل مدینہ کا قول ہمیں امام ابوحنیفہ کے قول سے زیادہ پسند ہے، اگرچہ میں نے امام ابوحنیفہ کے لیے ایسی ثابت حجت ودلیل سے استدلال کیا ہے کہ اہل مدینہ اس کا جواب دینے کا کوئی راستہ نہیں پائیں گے۔

مجلس مناظرہ میں خندہ جبین

امام محمد رحمہ اللہ کی اعلی صفات اور بہترین اخلاق میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اگر ان سے کوئی علمی اختلاف یا بحث ومباحثہ اور مناظرہ کرتا تو اس وقت بھی آپ خوش اخلاق اور خندہ جبین رہتے تھے، مخالف کے اختلاف وغیرہ سے کسی قسم کی ناگواری محسوس نہیں کرتے تھے، چناں چہ اس بات کی گواہی جلیل القدر فقیہ امام شافعی نے بھی دی ہے، جیساکہ وہ فرماتے ہیں:

وما رأیت أحدا سئل عن مسألة فیہا نظر إلا رأیت الکراہة فی وجہہ إلا محمد بن الحسن.(الانتقاء فی فضائل الثلاثة الأئمة الفقہاء لابن عبد البر، ص69، الناشر:دار الکتب العلمیة- بیروت)

یعنی میں نے ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا جس سے کوئی قابل اشکال مسئلہ کے بارے میں سوال کیا گیا اور اس کے چہرہ پر ناپسندیدگی کے اثرات نہ ہوں، سوائے امام محمد بن حسن کے۔

وما ناظرت أحدا إلا تغیر وجہہ، ما خلا محمد بن الحسن.(مناقب الإمام أبی حنیفة وصاحبیہ للذہبی، ص81، الناشر: لجنة إحیاء المعارف النعمانیة- الہند، ط1408ھ)

ترجمہ: میں جس سے بھی مناظرہ کیا تو اس کا چہرہ کچھ متغیر ہوا، سوائے امام محمد بن حسن کے۔

اسی طرح امام محمد اور عیسی بن ابان کی اول ملاقات سے بھی یہ بات بالکل عیاں ہوتی ہے کہ مخالفین کے ساتھ بھی علمی اختلاف کے وقت امام محمد حلم وبردباری اور نرمی وخوش اخلاقی سے پیش آتے تھے، اس ملاقات کی تفصیل یہ ہے کہ مشہور ومعروف اصولی وفقیہ عیسی بن ابان کو اللہ تعالیٰ نے ذہانت کے ساتھ احادیث میں درک اور مہارت سے نواز تھا۔ ابتدا میں وہ احناف کے خلاف تھے اور سمجھتے تھے کہ امام ابوحنیفہ اور ان کے تلامذہ احادیث مخالف کرکے قیاس اور رائے کو ترجیح دیتے ہیں، چناں چہ محمد بن سماعہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عیسی بن ابان نے میرے ساتھ نمازِ فجر ادا کی، اتفاق سے اس دن امام محمد کی مجلس درس بھی تھی، لہٰذا میں نے اصرار کرکے عیسی بن ابان کو اس کی مجلس میں بٹھایا اور جب امام محمد اپنے درس سے فارغ ہوئے تو میں نے ان سے عرض کیا کہ یہ عیسی بن ابان ہیں، ذہین ہونے کے ساتھ حدیث کی معرفت بھی رکھتے ہیں، لیکن جب میں ان کو آپ کی طرف بلاتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم احادیث کی مخالفت کرتے ہیں۔یہ سن کر امام محمد، عیسی بن ابان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے:

یا بنی، ما الذی رأیتنا نخالفہ من الحدیث؟

ترجمہ:اے میرے بیٹے!آپ نے وہ کون سی حدیث دیکھی ہے جس کی ہم مخالفت کرتے ہیں؟

چناں چہ عیسی بن ابان نے احادیث کے پچیس ابواب کے بارے میں سوال کیا، امام محمد ان کا جواب دینے لگے اور دیگر احادیث ودلائل کے ذریعے ان میں سے منسوخ احادیث کو بیان کیا۔

راوی محمد بن سماعہ کہتے ہیں:
فالتفت إلی بعدما خرجنا فقال: کان بینی وبین النور ستر فارتفع عنی، ما ظننت أن فی ملک اللہ مثل ہذا الرجل. (أخبار أبی حنیفة للصیمری، ص132، الناشر: عالم الکتب- بیروت، ط:405ھ/ 1985م)

ترجمہ:وہاں سے نکلنے کے بعد عیسی بن ابان میری طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا کہ میرے اور نور کے درمیان ایک پردہ تھا جو میرے سامنے سے اٹھ گیا، میں نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں اس جیسا آدمی ہوگا۔

لہٰذا اس دن کے بعد امام محمد کے درس میں پابندی سے شریک ہونے لگے، یہاں تک امام محمد کے خصوصی تلامذہ اور احناف کے عظیم فقہاء میں ان کا شمار ہونے لگا۔اس قصہ سے جہاں امام محمد کی علمِ حدیث میں مہارت ثابت ہوتی ہے، وہیں مخالفین کے ساتھ نرمی کا برتاؤ اور بوقت اختلاف خوش اخلاقی کے ساتھ اپنا مدّعی پیش کرنا بھی واضح ہوتا ہے۔

امام محمد امام شافعی کی نظر میں

امام محمد کے اجل تلامذہ اور خصوصی شاگردوں میں ایک جلیل القدر فقیہ امام شافعی ہیں۔ امام شافعی نے امام محمد کی بہت تعریف کی ہے اور اپنے استاذ امام محمد کی ثنا گوئی اور مدح سرائی ایسے بلند الفاظ کے ساتھ کی ہے کہ شاید ہی کسی دوسرے استاذ کی ایسی تعریف کی ہواور بقول علامہ ابن العمادالحنبلی کے کہ امام محمد کی تعریف کرنا امام شافعی سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے، چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

وکان الشافعی- رضی اللہ عنہ- یثنی علی محمد بن الحسن ویفضّلہ، وقد تواتر عنہ بألفاظ مختلفة.( شذرات الذہب فی أخبار من ذہب لابن العماد الحنبلی:2/409 ، الناشر: دار ابن کثیر- بیروت، 1406ھ- 1986م)

ترجمہ:امام شافعی رحمہ اللہ امام محمد کی تعریف کرتے اور ان کو فضلیت دیتے تھے اور یہ بات ان سے مختلف الفاظ کے ساتھ تواتر سے ثابت ہے۔

اس سلسلے میں امام شافعی کے چند اقوال حسبِ ذیل ہیں:

1…ما رأت عینای مثل محمد بن الحسن، ولم تلد النساء فی زمانہ مثلہ.(مناقب الإمام الأعظم للکردری:2/149 ، الناشر: دائرة المعارف النظامیة- حیدرآباد الدکن، الہند)

ترجمہ:میری آنکھوں نے امام محمد بن حسن جیسا شخص نہیں دیکھا، اور نہ ہی ان کے زمانے میں عورتوں نے ان جیسا کوئی جنا تھا۔

2…أمنّ الناس علی فی الفقہ محمد بن الحسن. (تاریخ بغداد للخطیب:2/561 ، الناشر: دار الغرب الإسلامی- بیروت،1422ھ- 2002م)

ترجمہ:علمِ فقہ میں مجھ پر لوگوں میں سے سب سے زیادہ احسان کرنے والے محمد بن حسن ہیں۔

3…کان أفصح الناس کان إذا تکلم خیل إلی سامعہ أن القرآن نزل بلغتہ.(الانتقاء فی فضائل الثلاثة الأئمة الفقہاء لابن عبد البر، ص:174۔

ترجمہ: امام محمد لوگوں میں سب سے زیادہ فصاحت والے تھے، جب کوئی بات کہتے تو سننے والے کو خیال ہوتا کہ قرآن پاک انہی کی زبان میں اترا ہے۔

4…ما رأیت رجلا أعلم بالحلال والحرام، والعلل، والناسخ والمنسوخ من محمد بن الحسن.(شذرات الذہب لابن العماد العکری:2/410

ترجمہ: میں کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو امام محمد بن حسن سے زیادہ حلال وحرام، عللِ حدیث اور ناسخ ومنسوخ کو جاننے والا ہو۔

5… جب امام شافعی سے پوچھا گیا کہ آپ نے امام مالک اور امام محمد دونوں کی صحبت اختیار کی ہے اور دونوں حضرات سے شرفِ تلمذ حاصل کیا ہے، لہٰذا ان دونوں میں بڑا فقیہ کون ہے؟ تو امام شافعی نے جواب دیا:
محمد بن الحسن أفقہ نفسا منہ.( المصدر السابق)

ترجمہ:امام محمد بن حسن نفس کے اعتبار سے امام مالک سے زیادہ فقیہ ہیں۔

اسی طرح اور بھی کئی اقوال ہیں جنہیں جمع کرنے کے لیے ایک دفتر چاہیے، لیکن ذکر کردہ اقوال سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ امام شافعی کی نظر میں امام محمد کا بہت بڑا مقام اور بلند رتبہ تھا۔

فرض شناسی اور احساس ذمہ داری

امام محمد رحمہ اللہ ہمہ تن خدمتِ دین میں مشغول رہتے تھے اور علمی کاموں میں دل جمی اور انہماک سے مصروف رہتے تھے، علمِ فقہ میں مرجع الخلائق ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی ذمہ داری کا بہت احساس تھا، جس کی وجہ سے وہ اپنی راحت وآرام سب تج دیتے اور اپنی ضروریات اور حوائج قربان کرنے سے بھی گریز نہ کرتے تھے، چناں چہ ان کا ایک معمول یہ تھا کہ وہ رات کو بہت کم سوتے تھے، اکثر حصہ علمی مشاغل میں گزار دیتے تھے۔ اس بارے میں ان سے دریافت کیا گیا:

فقیل:لم لا تنام؟ قال:کیف أنام، وقد نامت عیون المسلمین توکلاً علینا؟ ویقولون:إذا وقع لنا أمر رفعناہ إلیہ، فیکشفہ لنا.( مناقب الإمام الأعظم للکردری:2/163)

آپ رات کو سوتے کیوں نہیں؟ جواب دیا کہ میں کیسے سوجاؤں، جب کہ مسلمانوں کی آنکھیں ہم پر بھروسہ کرکے سوئی ہیں؟ اور وہ کہتے ہیں کہ جب ہمیں کوئی مسئلہ درپیش ہوگا تو اس کی طرف لے جائیں گے تو وہ ہمارے لیے مسئلہ کا حل بیان کرے گا۔

سلاطین سے مرعوب نہ ہونا

امام محمد ملوک وسلاطین سے بالکل مستغنی تھے، وہ ایک باوقار اور عزتِ نفس رکھنے والے عالم تھے، عام لوگوں کی طرح سلاطین کی طرف مائل یا ان سے مرعوب نہیں ہوتے تھے، چناں چہ ایک مرتبہ امام محمد کچھ لوگوں کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ اتنے میں ہارون الرشید کا گزر ہوا، تمام لوگ اس کی طرف اٹھ کھڑے ہوئے، مگر امام محمد بدستور بیٹھے رہے-(تاریخ بغداد للخطیب:2/561 ، الناشر:دار الغرب الإسلامی- بیروت،1422ھ- 2002م)

وفات پُر ملال

پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کی خاطر حصولِ علم اور اس کی نشر واشاعت میں فنا کرکے بالآخر یہ جلیل القدر فقیہ سن 189ھ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ (الطبقات الکبری لابن سعد:7/242 ، رقم الترجمة:3505، الناشر:دار الکتب العلمیة- بیروت، 1410ھ- 1990م) امام محمد کی وفات کے بعد انہیں ایک شخص نے خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ امام محمد نے جواب دیا کہ مجھے بخش دیا گیا اور کہا گیا:

إنی لم أجعلک وعاء للعلم وأنا أرید أن أعذبک.(تاریخ بغداد للخطیب:2/561)

یعنی میں نے تم کو علم کا ظرف اس لیے نہیں بنایا تھا کہ میں تمہیں عذاب دوں۔ 

روشن مینار سے متعلق