امام ابو حنیفہ کے تیسرے ممتاز شاگرد اور معروف مجتہد امام زفر بن ہذیل ہیں۔ یہ اپنے علم و فضل اور ملکہ اجتہاد میں امام ابو یوسف اور امام محمد سے کم نہ تھے، بلکہ قیاس میں تو یہ صاحبین سے کچھ آگے ہی تھے۔ عام تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ أحدّہم قیاساً امام صاحب کے تلامذہ میں قیاس کرنے میں سب سے زیادہ تیز تھے۔ لیکن اس استعداد و صلاحیت کے باوجود اتنے مشہور نہیں ہوئے جتنے کہ صاحبین ہوئے، اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ صاحبین میں ملکہ اجتہاد کے ساتھ قوت تحریر اور تصنیف وتالیف کی صلاحیت بھی تھی اور انہوں نے اپنی تحریری یادگاریں بھی چھوڑی تھیں، اس لیے دنیا نے ان کے علم و فضل کو زیادہ جانا اور امام زفر اس نعمت سے یا تو محروم تھے یا انہوں نے اسے اختیار نہیں کیا، اس لیے وہ کوئی ایسی تحریری یاد گار نہیں چھوڑ گئے کہ دنیا ان کے فضل وکمال کا پورا اندازہ کرتی ۔
امام زفر اس حیثیت سے بھی امام صاحب کے تلامذہ میں ممتاز ہیں کہ ان کو امام صاحب نے اپنی زندگی ہی میں درس وتدریس کی اجازت دے دی تھی ، جب کہ امام ابو یوسف اور امام محمد کو ان کی زندگی میں اس کی اجازت نہیں مل سکی تھی۔
علم وفضل کے ساتھ زہد و اتقا اور استغنا وبے نیازی میں بھی امام صاحب کا پر تو ان پر پڑا تھا، چناں چہ حکومت کے شدید اصرار، بلکہ سختی کے باوجود انہوں نے عہدہٴ قضا قبول نہیں کیا، اس جرم میں ان کا گھر گرا دیا گیا ان کو روپوشی کی مصیبت اٹھانی پڑی، مگر اس سب کے باوجود انہوں نے اپنے کو اس آزمائش میں ڈالنا پسند نہیں کیا۔
نام و نسب
زفر نام ہے، ابوالہذیل کنیت تھی، بصرہ(بعض لوگوں نے ان کو اصبہانی لکھا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔) آبائی وطن تھا، ان کے والد ہذیل اموی دور میں اصفہان کے والی تھے، یہیں 110ئھ میں ان کی ولادت ہوئی ہے۔ (کردری ج 2 ص 187 ، لمحات النظر ص 4)
خاندان
ان کا سلسلہ نسب عدنان سے مل جاتا ہے، ان کا خان وادہ بصرہ کے ممتاز عربی خان وادوں میں تھا، من بیت شریف غالبًا اسی امتیاز کی وجہ سے یزید بن عبد الملک نے ان کے والد کو اصبہان جیسے اہم مقام کا والی (گورنر) مقرر کردیا تھا، ان کے ایک بھائی صباح بن ہذیل بنو تمیم کے صدقات کی وصولی کے عامل مقرر کیے گئے تھے۔
امام زفر کی اہلیہ بصرہ کے ممتاز محدث خالد بن حارث کی بہن تھیں، ان کی والدہ البتہ عجمی النسل تھیں، چناں چہ انہوں نے صورت ان کی اور سیرت باپ کی پائی تھی۔ حجاج بن ارطاة کہا کرتے تھے، ”اللسان عربی لا الوجہ“
، ان کا چہرہ تو عربوں جیسا نہیں ہے، مگر زبان عربوں جیسی ہے۔
تعلیم و تربیت
امام زفر کی ابتدائی تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں تذکرے خاموش ہیں، البتہ ان سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ ان کی تعلیم کا آغاز محد ثین کی آغوش میں ہوا، مگر ان کی ذہانت اور طباعی محض تحدیث روایت پر اکتفانہ کر سکی اور ان کو امام ابوحنیفہ کے درس فقہ تک کھینچ لائی۔ امام طحاوی کے واسطہ سے یہ روایت درج ہے کہ امام زفر ابتداءً محد ثین کی خدمت میں تحصیل علم کے لیے جایا کرتے تھے۔ ایک دن ایک مسئلہ ایسا پیش آیا کہ جسے ان کے شیوخ حل نہ کر سکے، وہ نا چار امام صاحب کی خدمت میں آئے اور مسئلہ دریافت کیا، امام صاحب نے اس کا جواب دیا۔ مگر امام زفر اس سے مطمئن نہیں ہوئے اور کتاب و سنت سے اس کی دلیل پوچھی، امام صاحب نے اپنے دستور کے مطابق فرمایا کہ یہ مسئلہ فلاں حدیث سے ماخوذ ہے اور اس کے عقلی دلائل یہ ہیں، پھر امام صاحب نے فرمایا کہ اگر مسئلہ کی صورت یہ ہو تو پھر جواب کیا ہوگا؟ امام زفر نے کہا کہ اس صورت کا سمجھنا تو میرے لیے پہلی صورت سے بھی زیادہ دشوار ہے، امام صاحب نے اس کا بھی جواب عنایت فرمایا، اس کے بعد امام صاحب نے کچھ اور مسائل پر روشنی ڈالی اور امام زفر کا بیان ہے کہ میں امام صاحب کی مجلس سے بہت خوش خوش واپس ہوا اور اپنے اصحاب حدیث کے سامنے ان مسائل کو رکھا کہ وہ ان کا جواب دیں، مگر وہ کسی مسئلہ کا کوئی جواب نہیں دے سکے، میں نے پھر تمام مسائل کے جوابات اور ان کے دلائل ان کے سامنے بیان کیے تو وہ حیرت زدہ ہو گئے اور پوچھا کہ یہ باتیں تمہیں کہاں سے معلوم ہوئیں؟ میں نے بتایا کہ امام ابوحنیفہ کی مجلس درس میں۔ اس کے بعد سے میں اپنے ساتھیوں میں راس الحلقہ سمجھا جانے گا۔(لمحات النظر ص 6) اس واقعہ کے بعد سے وہ بالاالتزام امام ابوحنیفہ کی مجلس درس میں شامل ہونے لگے اور تقریباً بیس برس تک ان کی خدمت اور رفاقت میں رہے۔
امام ابو حنیفہ کی مجلس درس میں عجیب کشش تھی اور اس کی یہ عجیب خصوصیت تھی کہ جو ایک بار اس میں شریک ہو گیا پھر کیا مجال کہ وہ اس کو چھوڑ کر دوسری جگہ جائے، امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زفر یہ تمام حضرات پہلے کسی اور حلقہ درس میں شریک تھے، مگر جب امام صاحب کی خدمت میں آئے تو پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے، امام ابو یوسف کے شیوخ کی فہرست سو سے زیادہ ہے اور اس سے کچھ زیادہ امام محمد کے شیوخ ہیں، خود امام زفر کے شیوخ کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔ مگر جو محبت، شیفتگی اور عقیدت ان لوگوں کو امام صاحب سے تھی وہ کسی سے نہیں تھی، اس میں امام صاحب کے علم وتفقہ اور ان کے مجتہدانہ درس کے ساتھ ان کے عام اخلاق وکردار اور زہد وتقویٰ کا بڑا دخل تھا، خصوصیت سے طلبہ کے ساتھ وہ جو شفقت، حسن سلوک اور مساوات کے ساتھ پیش آتے تھے اور ان کے لیے جو دل سوزی کرتے تھے اس کی مثال دوسری جگہ کم ملتی ہے۔
امام زفر امام صاحب کی زندگی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں:جالست أبا حنیفة أکثر من عشرین سنة فلم اراحدا انصح واشفق الناس منہ وانہ یبذل نفسہ للہ تعالی اما عامة النہار فانہ کان مشغولاً بالمسائل وحلّہا و تعلیمہا فاذا قام من المجلس عاد مریضاً أو شیع جنازة او واسی فقیرا وواصل اخاً أو سعی في حاجةٍ فاذا کان اللیل خلا للتلاوة العبادة والصلٰوة فکان ھذا سبیلہ حتی توفی․ (مناقب کردری صفحہ 104، ج 2)
”میں بیس برس سے زیادہ امام صاحب کی خدمت میں رہا، میں نے ان سے زیادہ کسی کو عام انسانوں کا خیر خواہ مخلص اور مشفق نہیں دیکھا، وہ صرف خدا ہی کے لیے اپنی جان کھپایا کرتے تھے، کوئی دوسرا جذبہ نہیں ہوتا تھا، قریب قریب پورے دن وہ مسائل کے حل اور ان کی تعلیم وتدریس میں لگے رہتے تھے، جب مجلس درس سے اٹھتے تھے تو کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتے یا کسی جنازے میں شرکت کرتے یا کسی کی ملاقات کے لیے جاتے یا پھر کسی کی کوئی اور ضرورت پوری کرنے میں لگ جاتے تھے۔ جب رات ہو جاتی تو پھر ذکر، تلاوت اور نماز کے لیے اپنے کو یکسو کر لیتے تھے، پوری زندگی انہوں نے اسی طریقہ پر گزاری“۔
امام زفر کے دوسرے شیوخ
اوپر ذکر آچکا ہے کہ امام زفر ابتدا ء ًکوفہ کے دوسرے شیوخ حدیث سے استفادہ کرتے تھے، اس کے بعد ان کو امام صاحب سے شرف تلمذ حاصل ہوا، امام صاحب کے علاوہ جن شیوخ سے انہوں نے استفادہ کیا ان کی تعداد کافی ہے، چند مشاہیر کے نام یہ ہیں:۔
سلمان بن مہران معروف بہ اعمش، یحییٰ بن سعید، محمد بن اسحاق صاحب المغازی، یحییٰ بن ایوب التیمی، اسماعیل بن ابی خالد، ایوب سختیانی، زکریا بن ابی زائدہ، سعید بن ابی عروبہ۔
نہایت ذہین اور ذکی تھے، اس لیے اپنے تمام اساتذہ کی نظروں میں بہت محبوب رہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ بھی انہیں بہت عزیز رکھتے تھے۔
امام صاحب کا طریق تعلیم اور امام زُفر
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کا طریقہ درس وتدریس عام شیوخ سے مختلف تھا، دوسرے شیوخ عمومًا اپنی معلومات طلبہ کو املا کرا دیتے تھے یا پھر زبانی تحدیث روایت کر دیتے تھے، مگر امام ابو حنیفہ کا درس مجتہدانہ اور تمرینی ہوتا تھا۔ وہ طلبہ کے سامنے مسائل پیش کر کے انہیں سے جواب لیتے تھے اور پھر ان ہی سے دلائل پوچھتے تھے، جب تلامذہ اپنی معلومات پیش کر لیتے تھے تو امام صاحب اپنی معلومات ان کے سامنے رکھتے، اس بحث و تمحیص کے بعد جو اصول و فروع طے ہو جاتے تھے، ان کو قلم بند کر لیا جاتا تھا۔(مناقب کردری ج1 ص 50) اس طریقہ درس کا نتیجہ تھا کہ امام صاحب کے تلامذہ میں جتنے ممتاز مجتہدین اور فقہا پیدا ہوئے کسی امام کے تلامذہ میں نہیں ہوئے۔
شیوخ کی رائے
امام صاحب امام ابو یوسف اور امام زفر دونوں کو تمام تلامذہ میں ممتاز حیثیت دیتے تھے، ایک بار فرمایا کہ میرے چھتیس اصحاب ایسے ہیں جن میں ۲۸ قاضی ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور چھ مفتی بن سکتے ہیں اور دو آدمی یعنی ابو یوسف اور زفر قاضیوں اور مفتیوں کی تعلیم و تربیت کا کام کرسکتے ہیں۔ (مناقب کردری ج2 ص 135)
استاد کا احترام
امام زفر امام صاحب کا غایت درجہ احترام کرتے تھے، فرماتے تھے کہ امام صاحب کی زندگی میں ان سے اختلاف کرتا تھا، مگر اب ہمت نہیں پڑتی، جب ان کی شادی ہوگئی تو امام صاحب کو انہوں نے مدعو کیا اور خطبہ کی خواہش ظاہر کی اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ ”یہ اپنے علم وفضل اور شرف کے لحاظ سے امام مسلمین ہیں“۔ بعض لوگوں کو یہ اعزاز برا معلوم ہوا اور ان سے کہا کہ تمہارے خاندان اور قوم کے ممتاز لوگ موجود ہیں، ان سے خطبہ کی خواہش نہیں کی۔ امام زفر نے فرمایا کہ اگر میرے والد بھی موجود ہوتے تو میں ان پر بھی امام صاحب کو ترجیح دیتا۔( مناقب کردری ج2 ص 184)
درس و تدریس
امام صاحب نے اپنی زندگی ہی میں ان کو درس وتدریس کی اجازت دے دی تھی، مگر انہوں نے استاد کی موجودگی میں غالباً درس وتدریس کا مشغلہ جاری نہیں کیا۔ بلکہ ان کی وفات کے بعد یہ سلسلہ جاری کیا۔ یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ انہوں نے کوفہ میں کتنے دنوں تک درس و تدریس کا سلسلہ قائم رکھا، مگر بہر حال انہوں نے کچھ دن یہاں درس دیا، پھر بصرہ منتقل ہوگئے۔
بصرہ میں مجلس درس
بصرہ کی فضا اس وقت امام صاحب کے تلامذہ کے لیے نہایت غیر موزوں تھی۔ گو وہاں امام صاحب کے متعدد تلامذہ موجود تھے، مگر کسی نے درس وتدریس کا سلسلہ جاری کرنے کی ہمت نہیں کی۔
یوسف بن خالد بصری، امام صاحب کے شاگرد تھے، جب وہ امام صاحب کی خدمت سے وطن واپس ہونے لگے تو امام صاحب نے ان سے کہا تھا کہ بصرہ میں بہت سے صاحب علم وفضل ہیں، وہاں جا کر کسی کھمبے (اس وقت دینی علوم کی درس گاہیں مسجدیں ہوتی تھیں، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ مسجد کے کسی کھمبے سے لگ کر مسند درس نہ بچھا دینا) سے لگ کر نہ بیٹھنا، یعنی درس و تدریس کا سلسلہ نہ جاری کر دینا اور یہ کہنے لگنا کہ ابو حنیفہ نے یہ اور یہ کہا ہے، ورنہ جلد ہی مسند درس اٹھا دینی پڑے گی۔ مگر انہوں نے امام صاحب کی ہدایت پر عمل نہیں کی اور بصرہ پہنچتے ہی مسند درس قائم کردی، نتیجہ وہی ہوا جس کی امام صاحب نے پیش گوئی کی تھی، یعنی ان کو جلد ہی مسند درس اٹھا دینی پڑی، اس وقت بصرہ میں عثمان بن مسلم امام بصرہ تھے ، یہ ان کی خدمت میں جانے لگے، مگر ان سے وہاں بھی خاموش نہیں رہا گیا۔ اور انہوں نے امام صاحب کے اقوال ان کے سامنے پیش کرنا شروع کردیے، جس کے نتیجہ میں شیخ عثمان کے تلامذہ نے ان کو زد وکوب تک کیا۔(لمحات النظر ص16)
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بصرہ میں امام صاحب اور ان کے تلامذہ سے لوگوں میں کتنی نفرت پھیلی ہوئی تھی، انہی حالات میں امام زفر بصرہ جاتے ہیں۔
امام صاحب لوگوں کی نفسیات اور ان کی سیاست اور رحجان سے خوب واقف تھے، اسی لیے انہوں نے یوسف بن خالد کو اہل بصرہ کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا، مگر وہ اس کو نہ سمجھ سکے، جس کے نتائج ان کے حق میں اچھے نہیں ہوئے، امام زفر خود بھی ذہین اور موقع شناس تھے اور پھر امام صاحب کی اس ہدایت سے بھی واقف تھے۔ اس لیے جب وہ بصرہ گئے تو انہوں نے پہلے حلقہ درس نہیں قائم کیا، بلکہ شیخ عثمان بن مسلم کی مجلس درس میں شرکت کرنے لگے، کچھ روز وہ چپ چاپ درس میں شریک ہو کر سنتے رہے، اس کے بعد انہوں نے ان کے اصول وفروع پر نظر ڈالی تو بہت سے مسائل کے سلسلہ میں اصل وفرع اور ماخوذ میں تضاد نظر آیا، امام زفران مسائل کا تذکرہ ان کے تلامذہ سے کرتے اور پھر بدلائل ان کی غلطی واضح کرتے، وہ تلامذہ اس کا ذکر شیخ سے کرتے اور ان سے اپنی رائے سے رجوع کرنے کے لیے اصرار کرتے، تھوڑے دن کے بعد نتیجہ یہ ہوا کہ امام زفر سے استفادہ کرنے والوں کا ہجوم ہوا اور ان کو ایک الگ حلقہ درس قائم کرنا پڑا، ابو اسد کہتے ہیں کہ ان کے درس میں اتنا ہجوم ہوا کہ وہاں کے اکثر حلقہائے درس ٹوٹ گئے۔ (اتنا ہی نہیں ہوا، بلکہ اسی اختلاف کی وجہ سے ان کو بے دین اور متبدع وغیرہ ٹھہرایا گیا۔)
امام زفر بہت دقیق النظر اور باریک بین تھے، اس لیے بعض تلامذہ ان کا درس سمجھ نہیں پاتے تھے اور اس سے اکتا جاتے تھے، مشہور محدث وکیع بن الجراح امام صاحب کے پاس جاتے تھے تو بہت تیار ہو کر جاتے تھے، مشہور محدث وکیع بن الجراح امام صاحب کے تربیت یافتہ ہیں، امام صاحب کی وفات کے بعد بغرض استفادہ صبح کو امام زفر کے پاس اور شام کو امام ابو یوسف کے پاس جایا کرتے تھے۔ (کردری ج2 ص 187)
لیکن امام ابو یوسف چوں کہ عہدہٴ قضا اور دوسری ذمہ داریوں کی وجہ سے مشغول رہتے تھے، جس کی وجہ سے ان کو استفادہ کا موقع کم ملتا تھا، اس لیے انہوں نے اب صرف امام زفر ہی کے پاس آمد و رفت محدود کر لی۔ان کے بارے میں فرماتے تھے کہ:
الحمد للہ الذي جعلک خلفًا لنا عن الامام، ولکن لا یذھب عنی حسرة الامام․ (کردری ج2 ص 184)
”خدا کا شکر ہے کہ آپ کو اس نے امام کا جانشین بنایا، اگر چہ امام صاحب کی غیر موجودگی کی حسرت کسی طرح دل سے نہیں جاتی“۔
تلامذہ
ان کی عمر نے زیادہ وفا نہیں کی، پھر بھی جتنے دنوں انہوں نے درس دیا ان سے ایک خلق کثیر فیض یاب ہوئی، چند مشہور تلامذہ کے نام یہ ہیں:
”عبد اللہ بن مبارک، محمد بن حسن، وکیع بن جراح، سفیان بن عیینہ، ہلال بن یحییٰ، حسن بن زیاد، محمد بن عبداللہ انصاری، فضل بن دُکین، ابراہیم بن سلیمان، بشر بن قاسم، محمد بن وہب، حافظ خالد بن حارث وغیرہ“۔
عہدہٴ قضا
حافظ ابن عبد البر اور عبد القادر قریشی نے لکھا ہے کہ امام زفر بصرہ کے قاضی بھی بنائے گئے تھے اور اہل بصرہ کو امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے مسلک سے جو کچھ اختلاف تھا اور جو غلط فہمی تھی وہ ان کے قاضی ہونے کے بعد ختم ہوئی۔ (الانتقاء ص173) مگر یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ وہ بصرہ یا کسی اور جگہ کے قاضی مقرر کیے گئے۔ عدم صحت کے وجوہ یہ ہیں:
(1) سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سوار بن عبد اللہ 139ئھ سے لے کر 156ئھ تک بصرہ کے قاضی رہے اور امام زفر کی وفات 158ئھ میں ہوئی ہے، اس لیے ان کے عہدہٴ قضا کے تقرر کا زمانہ زیادہ سے زیادہ دو برس ہو سکتا ہے۔ مگر اس مدت میں وہ منصب درس پر متمکن نظر آتے ہیں، ظاہر ہے کہ ان کی عمر کا اور کوئی حصہ نہیں بچتا جس میں یہ عہدہٴ قبول کر سکتے ہوں۔
(2) بعض روایتوں میں ہے کہ قاضی سوار کے بعد ان کے لڑکے عبد اللہ اس عہدہ پر مامور ہوئے، اگر یہ روایت صحیح ہے تو پھر امام زفر کے بارے میں عہدہ ٴقضا قبول کرنے کی روایت بالکل ہی بے بنیاد ہے، بصرہ کے قیام کے زمانہ میں ان سے وہاں کے اہل علم سے جو علمی مباحثے ومناظرے ہوے اور وہ ان کے لیے بصرہ کی فضا ہم وار ہوئی اس کی وجہ سے حافظ ابن عبدالبر کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ یہ عہدہٴ قضاہی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
(3) تیسری بات یہ کہ عہدہٴ قضا قبول نہ کرنے کے سلسلہ میں جو صریح روایتیں موجود ہیں اس کی موجودگی میں مذکورہ روایت بالکل ہی موضوع معلوم ہوتی ہے۔ کردری لکھتے ہیں:
اُکرہ زفر علی ان یلی القضاء فابی․
”امام زفر کو مجبور کیا گیا کہ وہ عہدہ قضا قبول کرلیں، لیکن انہوں نے انکار کیا“۔
ظاہر ہے کہ حکومت کی کسی پیشکش کو ٹھکرا دینا کچھ آسان نہیں تھا، چناں چہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہدم منزلہ واختفی مدة ثم خرج واصلح منزلہ ثم ہدمہ ثانیاً واختفی کذلک حتی عفی عنہ․(کردری ج 2 ص209)
”ان کا گھر گرا دیا گیا اور وہ مدتوں روپوش رہے، پھر آ کر انہوں نے اپنا مکان درست کرایا، پھر دوبارہ گرا دیا گیا وہ مدتوں روپوش رہے، پھر جا کے ان کو معاف کیا گیا“۔
ظاہر ہے اس واضح بیان کے بعد ان کے عہدہ قضا قبول کر لینے کی روایت کے عدم صحت میں کیا شبہ رہ جاتا ہے۔
پھر امام صاحب اور ان کے تلامذہ کے عہدہ قضا نہ قبول کرنے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک غیر معمولی عزم وارادہ، ہمت وجرات اور عدیم المثال کردار کا ثبوت ہے۔ ان کی اس قربانی اور ایثار نفسی نے دین کے وقار کو بلند کیا، حکومت کے غلط رخ کو بڑی حد تک موڑا اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ امام صاحب اور امام زفر جیسے اولوالعزم بزرگوں ہی کی قربانی نے امام ابو یوسف اور دوسرے بزرگوں کے لیے حکومت کی فضا سازگار بنائی کہ وہ حکومت میں رہ کر دینی مقاصد بر روئے کار لا سکے، پھر یہ بات بھی قابل قدر ہے کہ کوئی معمولی لیاقت کا آدمی اس عہدہ سے انکار کرتا تو زیادہ تعجب انگیز نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس وقت کے سلاطین ووزراء تک بھی اچھے خاصے دین کے عالم ہوتے تھے، ان کے سامنے ان کی لیاقت اور علمی صلاحیت کا ہر وقت امتحان ہوا کرتا تھا اور پھر وہ حکومت تقریبًا شخصی حکومت تھی، جس کے لیے حبس وقتل ایک معمولی بات تھی، اس لیے ہر شخص اس کے قبول کرنے کی جرأت کر بھی نہیں سکتا تھا، مگر امام صاحب اور ان کے تلامذہ نے اپنی غیر معمولی صلاحیت کے باوجود ایک دینی مقصد کی خاطر اس سے انکار کیا تھا، خود امام زفر کے متعلق امام صاحب فرمایا کرتے تھے کہ قاضی بننا تو معمولی بات ہے، یہ تو قاضیوں کی تربیت و تادیب کر سکتے ہیں۔
شادی
غالباً ان کی دوشادیاں ہوئی تھیں، ایک ممتاز محدث خالد بن حارث کی بہن سے، دوسری ان کے بڑے بھائی کی بیوہ سے، غالبًا یہ نکاح صرف انہوں نے بیوہ کی پرورش کی خاطر کر لیا تھا۔
وفات
بہت کم عمری یعنی کل 48 سال کی عمر میں وفات پائی، وفات کے وقت امام ابو یوسف موجود تھے، انہوں نے آخری وصیت کی خواہش ظاہر کی، انہوں نے کہا کہ یہ سامان میری بیوی کے لیے ہے اور یہ تین ہزار درہم میرے بھتیجے کے لیے ہیں۔ پھر فرمایا کہ نہ تو مجھ پرکسی کا کوئی حق ہے اور نہ میرا کسی پر کوئی حق ہے۔ (مناقب کردری ج2 ص 186) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کوئی اولاد نہ تھی۔
اخلاق وعادات
اپنے زہد و اتقا اخلاق وکردار کے لحاظ سے بھی اپنے معاصرین میں ممتاز تھے، ان کی وفات کے بعد لوگوں میں یہ عام چرچا تھا کہ محض آخرت کی باز پرس کے خوف سے ان کا انتقال ہوا۔ (مناقب کردری ج2 ص 186) حالاں کہ ان کی زندگی بالکل بے داغ تھی، خود فرماتے تھے کہ میں نے اپنے بعد کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جس کی باز پرس کا مجھے خوف ہو۔ (مناقب کردری ج2 ص183)
ابراہیم بن سلیمان کہتے ہیں کہ جب ہم لوگ امام زفر کی خدمت میں بیٹھتے تو کسی کی یہ مجال نہیں تھی کہ وہ دنیاوی باتوں کا تذکرہ کر سکتا۔ اور اگرکوئی شخص دنیا کا تذکرہ چھیڑہی دیتا تو وہ مجلس سے اٹھ جاتے تھے۔(مفتاح السعادہ)
امام صاحب کے شاگردوں میں داوٴد طائی مشہور صاحب زہد وتقویٰ بزرگ گزرے ہیں، ان سے اور امام زفر سے بہت زیادہ بھائی چارہ تھا، حسن بن زیاد کہتے ہیں کہ داؤد صرف عبادت میں مشغول ہو گئے۔ مگر امام زفر علم وعبادت دونوں کے جامع تھے۔ (مناقب ص 184)
یحییٰ بن اکثم فرماتے ہیں کہ میرے والد امام صاحب کے بعد امام زفر کی مجالس میں اس لیے زیادہ جانا پسند کرتے تھے کہ وہ علم کے ساتھ صاحب ورع و تقویٰ بھی تھے۔۔ خود فرماتے تھے میں نے دنیا میں رہنے کی کبھی بھی خواہش نہیں کی اور نہ میرا دل کبھی دنیا کے مزخرفات رنگینیوں کی طرف مائل ہوا۔(کردری ج 2ص 183)
علم وفضل
علم وفضل میں ان کو جو امتیاز حاصل تھا اس کا کچھ تذکرہ اوپر آچکا ہے، اس سلسلہ میں ائمہ فقہ و حدیث کے چند اقوال اور نقل کیے جاتے ہیں۔
امام ابو حنیفہ نے ایک بار ایک مجمع میں فرمایا کہ:
ہو امام من ائمة المسلمین وعلم من اعلام الدین
”وہ ائمہ مسلمین کے ایک امام اور دین کی سربلندی کے ایک نشان ہیں“۔
دوسرے ائمہ نے بھی ان کے علم و فضل کا اعتراف کیا ہے، عثمان بن ابی شیبہ کہتے تھے کہ میں نے اپنے والد سے ان کے علم و فضل کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ اس زمانہ کے سب سے بڑے فقیہ ہیں۔
ان کے اندر فقہ وحدیث کا بڑا اچھا امتزاج تھا، لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ تمہارے پاس جو احادیث ہوں وہ میرے سامنے پیش کرو، میں رطب ویابس الگ کر دوں گا۔(مناقب کردری ص 183)
امام صاحب کے تلامذہ کے بارے میں عام طور سے یہ غلط فہمی تھی کہ وہ قیاس کو حدیث وآثار پر ترجیح دیتے ہیں، لیکن یہ ایک صریح بہتان تھا، امام زفر فرماتے تھے کہ احادیث و آثار کی موجودگی میں ہم لوگ قیاس کو ترک کر دیتے ہیں۔ (مناقب کردری ص 183)
علم حدیث میں انہوں نے اپنی جو تحریر یادگاریں چھوڑی ہیں، ان کا تذکرہ آگے آئے گا۔
مجتہد کی حیثیت سے
امام صاحب کے دوسرے مخصوص تلامذہ امام ابو یوسف اور امام محمد کی طرح امام زفر کو بھی لوگوں نے مجتہد مطلق قرار نہیں دیا ہے، امام زفر کے متعلق جن لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ امام زفر نے ایک بار فرمایا تھا کہ میں امام صاحب کی زندگی میں اختلاف کیا کرتا تھا، لیکن اب اختلاف سے ڈرتا ہوں، اس لیے کہ ان کی زندگی میں اختلافی مسائل ان کے سامنے پیش ہوئے تھے، تو ردوکد کے بعد اکثر ان کی رائے کو ترجیح دینی پڑتی تھی، مگر اب اس کی کوئی شکل باقی نہیں ہے۔
یہ بات اپنے موقع محل کے لحاظ سے صحیح ہے، مگر ان کو مقلد محض قرار دے کر ان کے تمام مجتہدات کو نظر انداز کر دینا صریح ظلم ہے۔ اوپر ذکر آچکا ہے کہ امام صاحب خود اپنے تلامذہ سے فرمایا کرتے تھے کہ میرے کسی قول پر اس وقت تک فتوی نہ دو جب تک اس کا ماخذ معلوم نہ ہو جائے، جب امام صاحب خود اپنے تلامذہ کو تقلید محض سے منع کرتے تھے، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جس بات سے انہوں نے اپنے تلامذہ کو سختی سے منع کیا ان کے تلامذہ اسی کو اپنا شعار بنا لیتے، پھر امام صاحب نے اپنے درس وتدریس کا طریقہ ہی ایسا رکھا تھا کہ ان میں اجتہاد واستنباط کی صلاحیت لا محالہ پیدا ہوجاتی تھی، ان تمام باتوں کے باوجود ان کے تلامذہ میں سے تو کوئی مجتہد مطلق پیدا نہ ہو اور ان سے کم درجہ کے لوگ اس مرتبہ پر فائز کر دیے جائیں یہ انتہائی زیادتی کی بات ہے۔ خاص طور پر امام زفر جن کے مجتہد مطلق ہونے کے بعض اور دلائل بھی ہیں۔
امام زفر کے تقریبا سترہ اجتہاد کردہ مسئلے ایسے ہیں جن میں وہ بالکل منفرد ہیں اور فقہ حنفی میں ان کے مطابق فتوے دیے جاتے ہیں، ان مسائل کو الا شباہ والنظائر کے شارح اور مشہور فقیہ احمد حموی نے ایک رسالہ میں جمع کر دیا ہے، اس رسالہ کی متعدد شرحیں اور تلخیصیں کی گئی ہیں۔
اسی طرح ابوزید دبوسی نے اپنی کتاب تاسیس النظر میں ایک باب میں خاص طور سے ان مسائل سے بحث کی ہے، جن میں امام زفر نے امام صاحب سے اصولی یا فروعی اختلاف کیا ہے، اس کی تمام تفصیلات علامہ زاہد الکوثری نے امام زفر کے سوانح حیات میں کی ہیں، آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ ان کے مخصوص مجتہدات کی طرف، اتقانی زرکشی اور علامہ بزودی وغیرہ نے بھی اشارہ کیا ہے۔
اس کے بعد وہ پھر لکھتے ہیں:فان کان شان المجتہد المطلق الانفراد بمسائل فی الاصول والفروع فہا ہو زفر لہ انفرادات فی الناحیتین علی ان الموافقة لامام فی الرای فی بعض مسائل الاصول والفروع عن علم بادلتہا لاتخل بالاجتھاد المطلق اصلا․
”اگر مجتہد مطلق کی شان یہی ہے کہ وہ بعض اصولی اور فروعی مسائل میں منفرد ہو تو دونوں حیثیتوں سے امام زفر منفرد ہیں اور بعض اصولی یا فروعی مسائل میں ان کے دلائل و مآخذ کی واقفیت کے ساتھ امام صاحب کی ہم نوائی کرنا بھی اجتہاد مطلق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
امام صاحب ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ”اقیس اصحابی“
میرے اصحاب میں سب سے زیادہ قیاس کرنے والے۔
امام غزالی سے کسی نے اصحاب ابو حنیفہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے امام ابو یوسف اور امام محمد کی خصوصیات بیان کرنے کے بعد فرمایا ”زفرسب سے زیادہ دقیقہ سنج تھے“۔
تصنیف
امام زفر اپنے علم وفضل کے لحاظ سے امام صاحب کے خاص تلامذہ امام ابو یوسف اور امام محمد سے کم تر نہیں تھے۔ مگر ان میں تصنیف وتالیف کا وہ مادہ یا تو فطرةً کم تھا یا انہوں نے اس مشغلہ کو اختیار ہی نہیں کیا، اس لیے نہ تو ان کے خیالات اتنے زیادہ پھیل سکے جتنے ان دونوں بزرگوں کے پھیلے اور نہ ان کو وہ شہرت ہوئی جو صاحبین کو ہوئی۔
مناقب کر دری میں ہے:کان زفر قلیل الکتابة یحفظ بالسمع حسن القیاس
”امام زفر لکھتے بہت کم تھے، وہ جو کچھ سنتے تھے اسے حافظہ میں محفوظ کر لیتے تھے اور بہترین قیاس کرتے تھے۔
حاکم نے حدیث میں ان کی دو کتابوں کا تذکرہ کیا ہے، لکھتے ہیں:ان لزفر نسختین فی الحدیث احداہما روایة ابی وہب والاخری روایة شداد بن الحکم․ (معرفة علوم الحدیث ص 164)
”حدیث میں امام زفر کے دو مجموعے ہیں، ایک کے راوی ابووہب اور دوسرے کے راوی شداد بن حکم ہیں“۔
بے فائدہ کلامی مسائل سے گریز
اوپر ذکر آچکا ہے کہ اس زمانہ میں فلسفہ کے اثر سے علماء میں بہت سے ایسے مباحث اور لفظی اختلافات پیدا ہوگئے تھے جن کی حیثیت دین میں تو کچھ نہیں تھی، مگر سوء اتفاق سے وہ اس وقت توحید وآخرت کے مسائل کی طرح اہم ہوگئے تھے اور جو لوگ ان کلامی مسائل اور فلسفیانہ موشگافیوں سے اپنے دامن کو بچائے رکھنے کی کوشش کرتے تھے، ان کے دامن پر بھی لوگ دو چار چھنٹیں ڈال ہی دیتے تھے۔ امام صاحب اور ان کے تقریبًا تمام اصحاب وتلامذہ ایسے غیر ضروری مسائل ومباحث سے گریز کرتے تھے۔ مگر پھر بھی لوگوں نے ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کردیں، جن سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس وقت قرآن کے مخلوق اور غیر مخلوق ہونے کا مسئلہ عام طور سے موضوع بحث بنا ہوا تھا اور اس کے بارے میں عموماً لوگ ائمہ سے سوالات کرتے تھے۔ امام زفر گوان لایعنی باتوں سے بہت گریز کرتے تھے، مگر پھر بھی کبھی کبھی زبان کھولنے پر مجبور ہونا پڑتا تھا۔ ایک روز کسی نے قرآن کے بارے میں پوچھا، انہوں نے جواب دیا:
القرآن کلام اللّٰہ
”قرآن کلام الٰہی ہے“۔
یہ نہایت عاقلانہ جواب تھا، مگر سائل کا مقصد کچھ اور تھا، اس لیے اس نے فوراً ہی پھر پوچھا کہ کیا وہ مخلوق ہے؟ امام زفر نے ذرا تند، مگر ہم دردانہ لہجے میں فرمایا کہ
”اگر تم ان دینی مسائل کے سوچنے اور غور کرنے میں مشغول ہوتے جن میں میں مشغول ہوں تو وہ میرے لیے بھی مفید ہوتا اور تمہارے لیے بھی اور جن مسائل کی فکر میں تم پڑے ہوئے ہو وہ تمہارے لیے مضر ہیں، اللہ تعالیٰ کے لیے وہ چیزیں ثابت کرو جن سے وہ خوش ہو اور جن چیزوں کا تم کو خدا نے مکلف نہیں بنایا ہے، اس میں اپنی جان ناحق نہ کھپاؤ“۔
ایک بار حسن بن زیاد سے کسی نے کہا کہ” امام زفر بہت قیّاس تھے“ انہوں نے کہا کہ یہ جاہلوں کی بات ہے، وہ عالم تھے، پھر اس شخص نے کہا کہ امام زفر نے علم کلام میں غور و خوض کیا تھا؟ حسن نے کہا سبحان اللہ! کیا سطحی بات تم نے کی، ہمارے اصحاب کے بارے میں سوال کرتے ہو کہ انہوں نے علم کلام میں غور و خوض کیا تھا یا نہیں؟ وہ اس سے بڑی چیز کے حامل تھے، وہ علم وفضل کی کان تھے، جس کو عقل نہیں ہوتی اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے علم کلام میں غور کیا اور ہمارے اصحاب تو کانوا اعلم بحدود اللّٰہ․ (لمحات ص 17)
”وہ حدود اللہ سے خوب واقف تھے“۔
مقصد یہ تھا کہ ان کا مشغلہ یہ نہیں تھا کہ وہ ان مسائل میں، جو نہ تو دنیا کی زندگی میں مفید ہوں اور نہ آخرت میں، اپنا وقت ضائع کریں، بلکہ وہ حددود اللہ کی پاسبانی اور نگہبانی میں اپنی زندگی کھپاتے تھے، جو صرف ان ہی کے لیے نہیں، بلکہ پوری مخلوق خدا کے لیے دونوں جہاں میں مفید ہیں۔
جرح وتعدیل
عام محدثین نے امام زفر کی روایات کو قابل قبول قرار دیا ہے اور ان کی توثیق وتعدیل کی ہے، امام ذہبی لکھتے ہیں: وہ فقیہ، زاہد اور صدوق تھے، ان کی توثیق بہت سے لوگوں نے کی ہے، ابن معین بھی ان کی توثیق کرتے تھے۔
حافظ ابن حجر نے لسان میں فضل بن وکین کا قول نقل کیا ہے، ثقةً مأمونًا اسی طرح کے الفاظ حافظ ابن معین سے بھی نقل کیے گئے ہیں، ابن حبان نے بھی ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔
اس توثیق و تعدیل کے ساتھ بعض محدثین اور ارباب رجال نے ان پر نقد و جرح بھی کیا ہے، مثلاً ابن مہدی، قاضی سوار وغیرہ۔
لیکن جیسا کہ ہم امام محمد کے حالات میں لکھ آئے ہیں کہ جو لوگ ایک ہزار برس سے زیادہ سے متبوع ومطاع چلے آتے ہوں اور جن کے علم وفضل پر امت کا ایک بہت بڑا طبقہ اعتماد کرتا چلا آتا ہوں ان کے بارے میں اگر دو چار آدمیوں کی رائے اچھی نہ بھی ہو تو اس سے ان کی شخصیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اگر ان منفرد راویوں پر کوئی حکم لگایا جائے تو پھر مشکل سے کوئی ممتاز محدث یا فقیہ ثقہ رہ جائے گا۔