
ہمارے معاشرے میں بدگمانی، حسد، جلن، کینہ، بغض، عداوت، تکبر اور انانیت کی بیماری اتنی خطر ناک ہوگئی ہے کہ ہمیں کسی کی راحت، کسی کی خوشی، کسی کا آرام، کسی کا سکون کے سا تھ دو وقت کھانا کھانا برداشت نہیں، ہم شیطانی تدبیروں میں لگ کر، دوسروں کی زندگی اجیرن بنانے، انہیں تکلیف میں مبتلا کرنے، انہیں پریشانیوں سے دو چار کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں اور ہم ایسے شیطان صفت ہو گئے ہیں کہ دوسروں کی تکلیف پر ہم خوشی محسوس کرتے ہیں اور اپنے اس عمل کو بڑی کام یابی سمجھتے ہیں۔ دوسروں کی عزتوں کے ساتھ کھلواڑ کرنا، ان پر کیچڑ اچھالنا، ان کو بد نام کرنا، ہمارا پسندیدہ عمل اور پیشہ بن چکا ہے۔
ایمان والوں کا آپسی تعلق
ایک مؤمن کا دوسرے مؤمن کے ساتھ کیسا تعلق ہونا چاہیے، ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھایا ہے:
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مَثَلُ الْمُؤْمِنِینَ فِی تَوَادّہِمْ وَتَرَاحُمِہِمْ وَتَعَاطُفِہِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ: إِذَا اشْتَکَی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعَی لَہُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّہَرِ وَالْحُمَّی․ (صحیح مسلم، 2586)
ترجمہ: ایمان والوں کی آپس کی محبت، رحم دلی اور شفقت کی مثال ایک انسانی جسم جیسی ہے کہ اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے تو (وہ تکلیف صرف اُسی حصہ میں منحصر نہیں رہتی، بلکہ اُس سے) پورا جسم متا ثر ہوتا ہے، پورا جسم جاگتا ہے اور بخار وبے خوابی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عَنْ أَنَسٍ رضی اللّٰہ عنہ، عَنِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ: لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی یُحِبَّ لِأَخِیہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہِ․ (صحیح البخاری، حدیث: 13)
ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
مؤمن کعبہ سے بھی زیادہ محترم
کعبہ شریف، جسے پوری دنیا کا انسان عزت واحترام اور عظمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اس کی شان میں کسی طرح کی گستاخی کو جائز نہیں سمجھتا، اس کی مثال دیتے ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مؤمن کعبہ سے بھی زیادہ محترم ہے:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللّٰہ عنہما، قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ، وَیَقُولُ: مَا أَطْیَبَکِ وَأَطْیَبَ رِیحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرُمَتَکِ! وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِندَ اللّٰہِ حُرُمَةً مِنْکِ، مَالِہِ وَدَمِہِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِہِ إِلَّا خَیْرًا․ (سنن ابن ماجہ، باب حرمة دم المؤمن ومالہ، رقم 3932)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کو مخاطب کر کے فرمارہے تھے تو کتنا پا کیز ہ ہے، تیری خوشبوکتنی پاکیز ہ ہے، تو کتنا عظیم ہے، تیرا احترام کتنا عظیم ہے! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے! مؤمن کا احترام اللہ تعالی کے نزدیک تیرے احترام سے زیادہ عظیم ہے اور مؤمن کا مال اور اس کی جان تجھ سے زیادہ محترم ہے اور ہمیں مؤمن کے ساتھ اچھا گمان ہی رکھنا چاہیے۔
مسلمان کی عزت کے ساتھ کھلواڑ حرام
لہٰذا کسی مسلمان کی جان ومال اور اس کی عزت وآبرو کے ساتھ کھلواڑ کرنا، جان ومال کے متعلق اس کو نقصان پہنچانا یا اس کی عزت کو نیلام کرنے کی کوشش کرنا، اس کو بد نام کرنے کے درپے ہونا یہ تمام چیزیں حرام ہیں اور اسلام کی نگاہ میں بہت بڑا معاشرتی اور انسانی جرم ہے:
عن أبی بَکْرَةَ رضی اللّٰہ عنہ، ذُکرَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ: فَإِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ - قَالَ مُحَمَّدٌ وَأَحْسِبُہُ قَالَ - وَأَعْرَاضَکُمْ، عَلَیْکُمُ حَرَامٌ کَحُرْمَةِ یَوْمِکُمْ ہَذَا․ (صحیح البخاری، 105)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: یقینا تمہاری جان، تمہارا مال، تمہاری عزتیں تم میں سے ایک دوسرے پر حرام ہے، جیسے آج کا دن محترم ہے۔
دوسروں کو بدنام کرنے والوں کو اللہ رسوا کرے گا
اس وقت ہمارے معاشرہ کی اتنی بری حالت ہو گئی ہے کہ ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے، جن سے دوسروں کی عزت، ان کی نیک نامی اور ان کی اچھی حالت دیکھی نہیں جاتی، لہٰذا وہ اس چکر میں رہتے ہیں کہ کسی طرح ان کو بدنام کر دیا جائے، ان کو معاشرہ میں اور خاندان میں رسوا اور بدنام کر دیا جائے، حالاں کہ یہ ان کی اتنی غلط حرکت ہے کہ جس کی سزا کے طور پر اللہ تعالی ایسی حرکت کرنے والوں کو بھی دنیا میں رسوا کر دیتا ہے، تو اندازہ لگائیں کہ اگر ایک انسان کسی دوسرے کو رسوا کرنا چا ہے، تو ممکن ہے کہ وہ اپنے ناپاک مقصد میں کام یاب نہ ہو، لیکن اس کی سزا کے طور پر جب اللہ تعالی اس کو رسوا کریں گے، تو اس شخص کو رسوا ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رضی اللّٰہ عنہما قَالَ: صَعِدَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المنبر فَنَادَی بِصَوتٍ رَفِیعٍ، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ مَنْ أَسْلَمَ بِلِسَانِہِ وَلَمْ یُفْضِ الإیمانُ إلی قلبِہِ، لَا تُؤَذوا المُسْلِمِینَ وَلَا تُعَیِّرُوہُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِہِمْ، فَإِنَّہُ مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَةَ أَخِیہِ المُسْلِمِ تَتَبعَ اللّٰہُ عَوْرَتَہُ، وَمَنْ یَتّبِع اللّٰہُ عَوْرَتَہُ یَفْضُحُہُ وَلَوْ فِی جَوْفِ رَحْلِہِ․ (ترمذی شریف، باب ما جاء فی تعظیم المؤمن، 2032)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے، پھر بلند آواز سے پکار کر فرمایا: اے ایسے لوگوں کی جماعت، جو زبان سے مسلمان ہوئے اور ایمان ان کے دل تک نہیں پہنچا! مسلمانوں کو تکلیف مت پہنچاؤ، نہ انہیں عار دلاؤ، نہ ان کی پوشیدہ چیزوں کے پیچھے پڑو؛ کیوں کہ جب کوئی اپنے مسلمان بھائی کی پوشیدہ چیزوں کے پڑتا ہے تو اللہ تعالی اس شخص کی پوشیدہ چیزوں کے پیچھے پڑتا ہے اور جس کی پوشیدہ چیزوں کے پیچھے اللہ تعالی پڑ جائے تو اللہ تعالی اسے رسوا کر دیتا ہے؛ چاہے وہ اپنے کجاوے (گھر) کے اندر ہو۔
تکلیف پہنچانے والے مومن نہیں
ایک دوسری روایت میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان بھائی کی ایذا رسانی کو ایمان کے منافی قرار دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے تین بار قسم کھا کر فرمایا: بخدا! وہ شخص موٴمن نہیں جس کے شرسے اُس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔ (صحیح بخاری، 5670)
جب پڑوسی کے بارے میں یہ حکم ہے، تو رشتہ داروں کے بارے میں کیا حکم ہوگا؟ جس کے بارے میں اللہ کی دھمکی ہے، جو رشتہ داری کو توڑے گا، میں اس کو توڑ دوں گا۔
حضرت فضیل رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کتے اور سور کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں، تو مومنین ومومنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جرم ہے؟! (مدارک، الاحزاب تحت الآیة: 85 ص 59)
ہماری یہ کوشش رہتی ہے کہ کسی طرح سے سامنے والے کوزیر کیا جائے، اس کو معاشی طور پر کنگال کیا جائے، اس کو کسی بھاری نقصان میں ڈالا جائے، وہ معاشی طور پر مضبوط نہ ہونے پائے، ایسے لوگ کان کھول کر سن لیں کہ ہمارے آقا محبوب رب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ مومن نہیں ہو سکتے۔
عن أبی ہریرة رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَہُ النَّاسُ عَلَی دِمَائِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ․ (سنن ترمذی، باب ما جاء فی أن المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ، 2627)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مؤمن وہ ہے جس سے لوگوں کی جان ومال محفوظ ہوں۔
تکلیف پہنچانے والے کو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی سزا
دوسروں کو تکلیف پہنچانے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ ایسا جرم ہے جس کی سزا اللہ تعالیٰ آخرت کے ساتھ ساتھ اس دنیا میں بھی دیتے ہیں، لہٰذا آج اگر آپ کسی کو تکلیف پہنچا رہے ہیں تو یاد رکھیں، ایک دن آپ کی باری ضرور آئے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے:
عَنْ أَبِی صِرْمَةَ رضی اللّٰہ عنہ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ: مَنْ ضَارَّ ضَارَّ اللّٰہُ بِہِ، وَمَنْ شَاقَّ شَقَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ․ (سنن الترمذی، بَابُ مَا جَاءَ فِی الخِیَانَةِ وَالغِشِّ، 1940)
جس نے دوسرے کا نقصان کیا، اللہ اس کا نقصان کرے گا اور جس نے دوسرے کو مشقت میں ڈالا، اللہ اسے مشقت میں ڈالے گا۔
حضرت مجاہدرحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: جہنمیوں پر خارش مسلط کر دی جائے گی، تو وہ اپنے جسم کو کھجلائیں گے؛ حتیٰ کہ ان میں سے ایک کے چمڑے سے ہڈی ظاہر ہو جائے گی، تو اسے پکارا جائے گا: اے فلاں! کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں۔ پکارنے والا کہے گا: تو مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا، یہ اس کی سزا ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب آداب الالفة والاخوة…، الباب الثالث 2/ 242)
درج ذیل حدیث سے آپ اندازہ لگائیں کہ جب ایک بلی کو تکلیف پہنچانے پر اللہ تعالیٰ انسان کو سزا دیتا ہے، تو پھر اگر کوئی کسی انسان کو تکلیف پہنچائے تو اس کی سزا کیا ہوگی!
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللّٰہ عنہما: أَنَّ رَسُولَ اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ: عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِی ہِرَّةٍ، حَبَسَتْہَا حَتَّی مَاتَتْ جُوعًا، فَدَخَلَتْ فِیْہَا النَّارَ“․ قال: فقال واللّٰہ أعلم: لا أَنتِ أطعمتِہا ولا سقیتِہا حین حبستِہا، ولا أنتِ أرسلتِہا فأکلت من خَشاش الأرض․ (صحیح البخاری، 2236)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عورت کوایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا، کیوں کہ اس نے بلی کو باندھ کر رکھا تھا، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی تو وہ عورت اس کی وجہ سے جہنم میں گئی اور اس سے کہا گیا کہ نہ تو نے اس بلی کو کھلایا، نہ پلایا، جب کہ تو نے اسے باندھ کر رکھا اور نہ تو نے اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا سکتی۔
دوسروں کو تکلیف پہنچانے والے ملعون
جو شخص دوسروں کو کسی بھی اعتبار سے تکلیف پہنچاتا ہے یا کسی کے خلاف سازشیں کرتا ہے، اس کی زندگی بڑے خطرے میں ہوتی ہے؛ کیوں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہٹ جاتی ہے۔ چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
عن أبی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ”ملعونٌ من ضارَّ مؤمنًا أو مکر بہ“․ (سنن الترمذی، باب ما جاء فی الخیانة والغش، 1941)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی مومن کو تکلیف پہنچائے یا اس کے خلاف سازش کرے، وہ ملعون ہے۔
اور ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا کہ اس پر اللہ تعالیٰ رحم نہیں کرتا۔
عن جریر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ”من لا یرحم لا یُرحم“․ (صحیح البخاری، 5667)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
امام غزالی اور جانور کی تین اقسام
امام غزالی نے اپنی کتاب ”احیاء علوم الدین“ میں جانور کی تین قسمیں بیان کی ہیں:
1 – انسانوں کو فائدہ پہنچانے والے جانور، جیسے گائے، بکرا وغیرہ۔
2 – انسانوں کو تکلیف پہنچانے والے جانور، جیسے سانپ، بچھو، درندے وغیرہ۔
3 – وہ جانور جو نہ انسانوں کو تکلیف دیتے ہیں اور نہ بظاہر کوئی فائدہ پہنچاتے ہیں، جیسے جنگل میں رہنے والے جانور، لومڑی، گیدڑ وغیرہ۔
پھر اس کے بعد امام غزالی نے انسانوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ بہتر تو یہ ہے کہ آپ انسان رہیں، لیکن اگر آپ جانور ہی بننا چاہتے ہیں تو پہلی یا تیسری قسم کے جانور بنیں، جن سے انسانوں کو یا تو فائدہ پہنچتا ہے یا کم از کم نہ فائدہ اور نہ کوئی نقصان پہنچتا ہے۔ دوسری قسم کے جانور نہ بنیں، جن سے انسانوں کو صرف اور صرف نقصان پہنچتا ہے۔
دوسروں کو تکلیف پہنچاتے وقت اللہ کی قدرت کو ذہن میں لائیں
اخیر میں عرض یہ ہے کہ جب ہمارا شیطان نفس کسی کے خلاف سازش کرنے کو ہمیں کہے، کسی کو تکلیف پہنچانے کو ہمیں آمادہ کرنے کی کوشش کرے، کسی کو بدنام اور رسوا کرنے پر ہمیں ابھارے، تو ہم یہ ذہن میں لائیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہم سے انتقام لیا اور ہمیں ہماری اس حرکت پر دنیا میں ہی سزا دی تو ہمارا کیا حشر ہوگا؛ کیوں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی وارننگ ہے: ”یقینا تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے“۔ (سورہ بروج: 13)