دعا میں اصل چیز کامل توجہ اور خشوع و خضوع ہے

idara letterhead universal2c

دعا میں اصل چیز کامل توجہ اور خشوع و خضوع ہے

استاذ المحدثین حضرت مولانا سلیم الله خان

دعا کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں صورت کی بجائے معنیٰ پر نظر ہوتی ہے، بخلاف دوسری عبادات کے کہ ان میں صورت کا بھی اعتبار ہے، مثلاً نماز ہے، اس کی ایک خاص ترتیب و کیفیت ہے اور جس شخص نے اس ترتیب کے مطابق عمل کیا تو ہم ظاہر کو دیکھ کر یہی کہیں گے کہ اس نے نماز پڑھی ، چاہے اس نماز میں روح ہو یا نہ ہو، دعا کا معاملہ مختلف ہے، ایک تو اس کی کوئی خاص وضع و کیفیت نہیں، آپ ہر وقت،ہر جگہ،کسی بھی زبان میں اللہ رب العزت سے گفت گوکر سکتے ہیں، اس میں صرف اپنی عاجزی، انکساری اور احتیاج اور عبدیت کا مولیٰ کے سامنے اظہار کرنا ہوتا ہے، جس شکل اور جس کیفیت کے ساتھ ہو، لیکن دعا میں اصل چیز کامل توجہ اور خشوع و خضوع ہے ،اگر یہ چیز حاصل ہے تو وہ دعا ہے، ورنہ صرف زبانی دعا کے کچھ الفاظ یاد کر لیے اور اسی کو دہراتے رہے، یہ خالی از معنی دعا ہوئی اور اس کو صحیح معنوں میں دعا نہیں کہا جاسکتا۔ آپ جب کسی استاذ کے پاس کوئی درخواست لے کر جاتے ہیں تو اس میں کتنا اہتمام کرتے ہیں کہ کاغذ اچھا ہو، لکھائی صاف ہو، اِملاء کی غلطیاں نہ ہوں اور جب وہ درخواست پیش کرتے ہیں تو اس کی منظوری کے لیے اصرار بھی کرتے ہیں اور آپ کے دل میں اس کی منظوری کے لیے تڑپ بھی ہے تو پھر کیا بات ہے کہ ہم جب اللہ رب العزت سے کوئی درخواست کرنا چاہتے ہیں تو بغیر کسی طلب اور تڑپ کے بغیرکسی الحاح اور زاری کے جلدی جلدی کچھ الفاظ پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو بڑی دعائیں مانگیں؟! البتہ علماء نے لکھا ہے کہ بعض ساعات او راوقات دعا کی قبولیت کے لیے خاص ہوتے ہیں، اس وقت اگر پوری توجہ کے بغیر بھی دعا کی جائے تو قبول ہوتی ہے۔

دوسری عبادات کے مقابلہ میں ایک خاص خصوصیت دعا میں یہ ہے کہ جتنی عبادات ہیں اگر دنیا کے لیے ہوں تو وہ عبادت نہیں رہتی ، بخلاف دعا کے کہ دعا دین کے لیے ہو تو ”سبحان الله“ پھر تو کہنا ہی کیا! لیکن اگر دنیا کے لیے ہو پھر بھی وہ عبادت ہوگی، اس لیے کہ دعا میں جو نیاز مندی اور عبدیت کااظہار ہے وہ دنیا کے مانگنے کے وقت بھی موجود ہے، اللہ رب العزت کے سامنے اظہارِ عجز و نیاز، اس کی کبریائی اور علوِ شان کا عملی اقرار ہے، جو کہ محمود ہے۔

بعض لوگ اس لیے دعا چھوڑ دیتے ہیں کہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ہم بہت گنہگار ہیں ، اس لیے اللہ کے سامنے ہاتھ نہیں اٹھا سکتے ! یہ تواضع نہیں، بلکہ شیطان کا بہت بڑا دھوکہ ہے، ارے بھائی ! آپ اللہ سے کٹ کر اور اس سے ناامید ہو کر اور اس کی چوکھٹ کو چھوڑ کر جاؤ گے کہاں؟ کیا اس کے در کے علاوہ اور کوئی در ہے جسے انسان کھٹکھٹا سکے!؟ #

تو مگو مارا بداں شہ بار نیست

 با کریماں کارہــا دشوار نیست

آپ کے اختیار میں نہیں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جس کو چاہیں ہدایت دے دیں، یہ تواللہ کے اختیار میں ہے۔ جگہ جگہ قرآن مجید نے کہا ۔ اعلان کرو ”اے محمد!صلی الله علیہ وسلم کہ مجھے نفع پہنچانے یا نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں“۔ کھلی ہوئی اور واضح ہے، لیکن اس کے باوجود کچھ ایسے لوگ جو کلمہ پڑھتے ہیں اور ہر نماز میں ”اہدنا الصراط المستقیم “ کی دعا بھی مانگتے ہیں۔ اے الله ! ہمیں صراط مستقیم پر چلائیے، پھر بھی شرک میں مبتلا ہیں، بدعات کے داعی ہیں اور پھر تاویلیں کرتے ہیں، سیدھی بات کو پیچیدہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، کون نہیں جانتا کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے امت کو دین کی تعلیم دی ہے، اس میں کہیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ کہا کہ میرے نام کی بھی نیاز دیا کرنا؟ میرے نام پر بھی نذرماننا ؟ نہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے نام پر نذر ماننے کی ہدایت دی، نہ اپنے نام کی نیاز دینے کی ہدایت کی۔ نہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی قبر کو یا اپنی ذات کو سجدہ کرنے کی اجازت دی، بلکہ سختی سے ان باتوں سے منع کیا، تو آپ کے لیے یا کسی ولی اور بزرگ کے لیے ان باتوں کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟