ایک بار شیخ جنید بغداد ی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مریدساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا:”تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟“
لوگوں نے کہا: ”حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟“
شیخ نے جواب دیا:”ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔“
مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے درازہیں۔
شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا: ”تم کون ہو؟“
”میں ہوں، جنید بغدادی۔“
”تو اے ابوالقاسم ! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟“
”جی ہاں ، کوشش تو کرتا ہوں۔“
”اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو گے؟“
”کیوں نہیں، بسم الله پڑھتا ہوں او راپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا او رکھانا کھاتے وقت الله کی یاد سے غافل نہیں ہوتا“۔
پھر دوبارہ کہا:”جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدلله کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔“
یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا:”تم انسانوں کے پیرمرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔“
یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا:”یا حضرت یہ شخص تو دیوانہ ہے۔“
”ہاں !دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننی چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں، مجھے اس سے کام ہے۔“
بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا:”کون ہو تم؟“
”میں ہوں بغدادی شیخ ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔“
بہلول نے کہا:”خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہو گے؟“
شیخ نے جواب دیا:”جی ہاں، جانتا تو ہوں۔“
”تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟“
”میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بے موقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کرکے خلق خدا کو الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہری علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔“ اس کے ساتھ گفت گو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔
بہلول نے کہا: ”کھاناکھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمہیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔“ پھر شیخ سے منھ پھیرا او رایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا:”یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟“ ”بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔“ اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا او رکہا:”تمہیں کھانا کھانے او ربات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں۔ سونے کا طریقہ تو تمہیں معلوم ہی ہو گا؟“
شیخ نے کہا: ”جی ہاں! معلوم ہے۔“” اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟“” جب میں عشاء کی نماز اور اورادو وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔ بہلول نے کہا:”معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔“
یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا او رکہا:”اے حضرت! میں نہیں جانتا۔ الله کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔“ کچھ دیر بہلول نے کہا: ”میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے ، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا“۔
شیخ جنید نے بے ساختہ کہا:”جزاک ا لله خیراً۔ (الله تمہارا بھلا کرے)
پھر بہلول نے بتایا: گفت گو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک او رنیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے، الله کی رضا مندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔“ پھر سونے کے متعلق بتایا:”اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مال دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک الله کے ذکر میں مشغول رہو۔“
بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔
شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔
حضرت جنید او ربہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں او رانسان گم راہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔