اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے نقصانات

idara letterhead universal2c

اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے نقصانات

ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی

یونیورسٹی آف ٹورنٹو، کینیڈا کے الیکٹریکل انجینئرنگ کے پروفیسر جارج سینکلئیر Sinclair George اپنے 1980ء کے مقالے میں لکھتے ہیں کہ شاید ”ٹیکنالوجی“ کی اتنی ہی تعریفیں ہوں کہ جتنے اس کے استعمال کرنے والے ہیں، یعنی ٹیکنالوجی کی تعریف کا انحصار ٹیکنالوجی کے استعمال کرنے والے پر ہے۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ: ”ٹیکنالوجی“ کی تعریف کرنے کے لیے پروفیسر کارل مٹچیم Carl Mitchamکوپینسٹھ صفحات درکار ہوئے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مؤرخین اور فلسفی جس طریقے سے ٹیکنالوجی کی تعریف پیش کرتے ہیں، وہ اس ٹیکنالوجی کو ایجاد کرنے والے انجینئروں، سائنس دانوں اور محققین کے یہاں سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کی فلسفیانہ، تاریخی اور عملی تعریف کی بحث میں پڑے بغیر ہم اپنے قارئین کے لیے ٹیکنالوجی کی آسان تعریف پیش کرتے ہیں۔ برٹانیکا انسائیکلو پیڈیا کے مطابق ”سائنسی علم کے انسانی زندگی کے عملی مقاصد کے لیے استعمال کو ٹیکنالوجی کہا جاتا ہے“۔ کیمبرج ڈکشنری کے مطابق ”سائنسی علم کے کاروبار، صنعت یا مینوفیکچرنگ میں استعمال کو ٹیکنالوجی سے تعبیر کیا جاتا ہے“۔ یا مزید آسان الفاظ میں: ”سائنسی دریافتوں کے عملی، خاص طور پر صنعتی استعمال کو ٹیکنا لوجی کہا جاتا ہے“۔

ٹیکنالوجی کے استعمال سے جہاں انسانیت نے بے تحاشا فوائد اُٹھائے ہیں، مثلاً آمد و رفت میں آسانی سے لے کر علاج معالجہ وغیرہ، وہیں ٹیکنالوجی کے استعمال میں جب افراط وتفریطِ کا رویہ برتا گیا تو اسی ٹیکنالوجی نے نسلیں تباہ کر دیں۔ ایک اہم بات کہ عمومی طور پر سائنس دان اور محققین اپنی سائنسی تحقیقات ، ایجادات اور ٹیکنالوجیز انسانیت کے فائدے کے لیے پیش کر رہے ہوتے ہیں، مگر ان کی ایجادات اور سائنسی تحقیقات وٹیکنالوجی کو بڑے بڑے سرمایہ دار اُچک لیتے ہیں اور اس ٹیکنالوجی سے پیسے بنانے لگ جاتے ہیں۔ ہمیں یہ کہتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہورہی کہ اس وقت عالمی سطح پر کون سی سائنسی تحقیقات ہونی چاہئیں یا کون سی ٹیکنالوجی کے متعلق قوانین بنانے چاہییں اور اس کو فروغ دینا چاہیے یا حکومتوں یا فنڈنگ ایجنسیز کو کس سائنسی شعبے میں زیادہ سرمایہ لگانا ہے، اس میں بھی دراصل عالمی معاشی سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے والوں کا کافی کردار ہوتا ہے۔ گو کہ سائنس دانوں اور محققین کی ایک بڑی تعداد اپنی تحقیقات میں اخلاص سے لگی رہتی ہے، مگر انہی تحقیقات کو زیادہ تر فروغ ملتا ہے جو کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت دیتی ہیں، جن سے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے والوں کے مفاد وابستہ ہوتے ہیں، جو ان کے نظریات کی تائید میں ہوتی ہیں اور ان کے ایجنڈے کو فروغ دیتی ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے والے ہی دراصل پوری دنیا کی ٹیکنالوجی کو آگے فروغ دیتے ہیں اور پورے عالمی معاشی نظام کو اپنے قبضے میں لے کر” قدر“ اور ”اقدار“ کی نئی تعریف بھی خود ہی کرتے ہیں، یعنی یہ جب چاہتے ہیں فرضی، تخیلاتی چیزوں کو قابل قدر بنا کر خرید و فروخت شروع کروا دیتے ہیں اور یہ جب چاہتے ہیں ”اقدار“ کی تعریف بھی متعین کر دیتے ہیں کہ معاشرے میں موجود سب سے بری چیز بھی لوگوں کو معزز لگنا شروع ہو جاتی ہے۔ چوں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سرکاری قانون، اخلاقیات اور مذہبی پابندیوں کو مدنظر نہیں رکھا جاتا اور اصل مقصد پیسہ کمانا ہی ہوتا ہے، لہذا اس کا عملی نتیجہ جو سامنے آتا ہے، اس سے معاشرے میں صرف اور صرف معاشی اَبتری اور اخلاقی گراوٹ ہی ہوتی ہے۔

قارئین! اب ہم انہیں ٹیکنالوجیز میں سے ایک ٹیکنالوجی کی شکل یعنی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا ذکر کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں سوشل میڈیا، کمپیوٹر، اسمارٹ فون، اسمارٹ ٹی وی، آن لائن گیمز وغیرہ آتے ہیں۔ آن لائن اعداد و شمار جمع کرنے والی ویب سائٹ اسٹیٹا سٹا Statista.com کے مطابق پوری دنیا میں صرف سوشل میڈیا کے استعمال کرنے والوں کی تعداد سوا پانچ ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں فیس بک (میٹا)، یوٹیوب، انسٹا گرام، واٹس ایپ، ٹک ٹوک، وی چیٹ، ٹیلی گرام، اسنیپ چیٹ، ٹوئٹر (ایکس) وغیرہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والے پلیٹ فارمز اور ایپلیکیشنز ہیں۔ سوشل میڈیا تک رسائی حاصل کرنے کے لیے عمومی طور پر کمپیوٹر اور موبائل فون کو استعمال کیا جاتا ہے۔

جہاں تک موبائل فون کا تعلق ہے تو موبائل فون کی ایجاد نے جہاں آپس کے رابطے میں سہولت پیدا کی تھی، وہیں ایمرجنسی کی صورت میں فوری رابطہ کرنے کے ذرائع بھی عوام کو میسر آئے، مگر جوں جوں کمپیوٹر سائنس اور ٹیلی کمیونیکیشن انجینئرنگ میں ترقی ہوئی، اس موبائل فون نے بھی ترقی کے مراحل طے کیے اور اب ہمارے سامنے موبائل فون کی جدید شکل اسمارٹ فون کی صورت میں موجود ہے، لہذا عمومی طور پر جب ہم موبائل فون کہتے ہیں تو اس سے یہی اسمارٹ فون مراد ہوتا ہے، لہذا ہم اپنے اس مضمون میں موبائل فون اور اسمارٹ فون کو مترادف الفاظ کے طور پر استعمال کریں گے۔ اس اسمارٹ فون کو اب بلا مبالغہ دسیوں قسم کے کاموں میں استعمال کیا جارہا ہے، جن میں ای میل، فیکس، اسکیننگ سے لے کر گیمنگ، ٹریڈنگ، کیلکولیٹر، کیمرہ اور ویڈیوز دیکھنے تک شامل ہیں۔ اب سے بیس پچیس سال پہلے گھروں میں جو ٹی وی ہوا کرتا تھا، اس میں وہی ٹی وی چینلز اور پروگرام دیکھے جاسکتے تھے جو کہ حکومتی اجازت سے ٹی وی چینلز نشر کرتے تھے۔ اگر کسی کو اپنی پسند کی فلم یا کوئی پروگرام دیکھنا ہوتا تو اس کے لیے وہ علیحدہ سے وی سی آر لے کر آتا اور پھر اس کے ذریعے سے اپنے من پسند پروگرامز کو دیکھتا۔ اسمارٹ فون نے انسانوں کو ان مختلف الیکٹرانک آلات کی قید سے بھی نجات دے دی اور اب اسی اسمارٹ فون پر وہ جب چاہے، جہاں چاہے اور جس طرح کے پروگرامز چاہے دیکھ سکتا ہے۔ نیز بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے جس طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو فروغ دیا ہے، اس کے نتیجے میں بچے اور نوجوان بے حیائی، عریانی، فحاشی، گیمنگ، چیٹنگ، جوا، سٹہ اور سود جیسی مخرب اخلاق اسکیموں کے عادی ہو چکے ہیں اور اخلاقی گراوٹ کی پستیوں میں گِر چکے ہیں، الا ماشاء اللہ۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ موبائل فون اور سوشل میڈیا کے استعمال سے دماغی صحت پر انتہائی برا اثر پڑتا ہے اور سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق بالخصوص بچوں اور نوجوانوں کے لیے تو اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا بہت نقصان دہ ہے۔ اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے تباہ کن اثرات اب کسی سے مخفی نہیں۔ انہی تباہ کن اثرات کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں ایسے قوانین بننا شروع ہو چکے ہیں، جن میں واضح طور پر موبائل فون اور سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ میں ایک چھوٹے سے یورپی ملک آئرلینڈ کی مثال پیش کرنا چاہوں گا کہ جہاں پر پرائمری اسکولوں میں بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال اور موبائل فون لانے پر پابندی ہے اور اگر کوئی طالب علم موبائل فون اسکول لے کر آئے گا تو اسکول ٹیچر اس کا موبائل فون ضبط کر لیتے ہیں۔

آئرلینڈ کی وزارت تعلیم کی وزیر نورما فولے Norma Foley سیکنڈری اسکولوں میں بھی اسمارٹ فون لانے پر پابندی لگانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں، ان کا بیان ہے کہ:

”وزارت تعلیم کی وزیر موبائل فون کو تمام سیکنڈری اسکولوں میں لانے پر پابندی لگانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں، اس تحقیق کے نتیجے میں جو کہ طالب علموں کے آلات (موبائل فون) کے استعمال کرنے کو ان میں انتشار پیدا ہونے (یعنی ان کی توجہ تعلیمی کاموں سے ہٹنے) اور سائبر ہراسانی کا شکار ہونے سے جوڑتی ہے، جب کہ زیادہ تر سیکنڈری اسکول موبائل فون پر پابندی لگاتے ہیں یا طلباء کو موبائل فون لاکرز میں رکھنے پر مجبور کرتے ہیں، نورما فولے اس بات پر قائل ہیں کہ موبائل فون پر وسیع ترین پابندی ہی آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ ہے“۔

قارئین! دیکھیے کہ جس تحقیق کا آئرلینڈ کی وزارت تعلیم کی وزیر حوالہ دے رہی ہیں، اس میں دو بنیادی وجوہات ذکر کی گئی ہیں: اول طلباء کا پڑھائی سے رحجان ہٹنا اور دوسرا سائبر ہراسانی۔ اقوام متحدہ کا فنڈ برائے اطفال یونیسیف کے مطابق سائبر بلینگCyberbullying یعنی سائبر ہراسانی کی تعریف یہ ہے کہ کوئی شخص ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز مثلاً انٹرنیٹ،سوشل میڈیا یا موبائل فون کا استعمال کرتے ہوئے کسی دوسرے شخص کو ڈرائے، اُس کے متعلق جھوٹ بولے، اُسے دھمکائے، گالی گلوچ کرے، ہراساں کرے، اسے جان بوجھ کر تکلیف پہنچائے، جعلی اکاؤنٹ بنا کر غیر مناسب میسجز دوسرے کو بھیجے اور دوسرے شخص کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کرے۔ یہ دونوں ہی وجوہات ایسی ہیں جن سے بچوں اور طلباء کا مستقبل داؤ پر لگتا ہے اور وہ طرح طرح کے نفسیاتی، ذہنی اور دیگر امراض کا شکار ہورہے ہیں۔ ایک اور تحقیقی رپورٹ یہ بیان کرتی ہے کہ ان ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز، سوشل میڈیا اور اسمارٹ فون کے استعمال سے ڈی ہیومنا ئزیشن Dehumanisation یعنی انسان میں سے انسانی صفات کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

مغربی ترقی یافتہ ممالک میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز پر عائد پابندیاں

آئر لینڈ تو ایک چھوٹا سا یورپی ملک ہے، آپ اقوام متحدہ کی تعلیمی، علمی و ثقافتی تنظیم یونیسکو کی گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ 2023ء کو ہی دیکھ لیجیے جو کہ واضح طور پر کہتی ہے کہ: ”موبائل فون اسکولوں میں سیکھنے کے عمل میں رکاوٹ بنتے ہیں“۔ رپورٹ میں درج ہے کہ بیلجیم، اسپین اور برطانیہ میں اسکولوں میں سے اسمارٹ فون کو ختم کرنے سے بچوں کے سیکھنے کے عمل میں بہتری آئی ہے۔ یہ رپورٹ چار سو پینتیس صفحات پر مشتمل ہے اور اس کو عالمی ماہرین تعلیم نے مرتب کیا ہے۔ یوں تو یہ رپورٹ پوری ہی پڑھنے کے قابل ہے، کیوں کہ یہ ٹیکنالوجی کا تعلیمی اداروں اور تعلیم پر اس کے اثرات کا ذکر کرتی ہے، مگر اس رپورٹ کا آٹھواں باب نہایت اہمیت کا حامل ہے، جس میں ٹیکنالوجی کے منفی اثرات اور عالمی سطح پر ٹیکنالوجی، موبائل فون اور سوشل میڈیا پر عالمی پابندی کے قوانین کو تفصیلی بیان کیا گیا ہے۔

ستمبر2024ء کو برطانوی اخبار گارڈین میں چھپنے والی ”ہم پچھلے زمانے میں واپس جا رہے ہیں“ رپورٹ کے مطابق کئی یورپی ممالک اسمارٹ فون کے اسکولوں میں لانے پر تدریجاً پابندی لگارہے ہیں، جن میں سرفہرست نیدرلینڈ، فرانس، ہنگری، اٹلی اور یونان جیسے ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک کے اسکولوں سے جڑے ماہرین تعلیم کا یہ ماننا ہے کہ جب ہم اسکولوں میں تمام بچوں کو دیکھتے ہیں تو وہ برآمدہ میں ٹہلتے ہوئے اسمارٹ فون میں منہمک نظر آتے ہیں، اُن کی آپس کی بات چیت ختم ہو چکی ہے اور کھیل کھیلنے والی ٹیبل ٹینس کی ٹیبلیں ویران پڑی رہتی ہیں اور بنیادی طور پر سماجی ثقافت کو کھو بیٹھے ہیں۔

اسی طریقے سے نیدر لینڈ کی حکومت نے موبائل فون، اسمارٹ واچز (گھڑیوں) اور ٹیبلٹس پر اسکولوں میں پابندی عائد کر دی ہے۔ اس وقت برطانوی پارلیمنٹ میں اس موضوع پر قانون سازی کے لیے بحث چل رہی ہے کہ کیا اسکولوں پر یہ لازم کر دیا جائے کہ وہ مکمل طور پر موبائل فون فری ہوں؟ آرگنائزیشن آف اکنامک کارپوریشن اینڈ ڈیولیپمنٹ (او ای سی ڈی) یعنی اقتصادی تعاون وترقی کی عالمی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق حد سے زیادہ ڈیجیٹل آلات کے کلاس روم میں استعمال سے طلباء کی تعلیمی کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں کم از کم انیس ریاستوں نے ایسے قوانین منظور کیے ہیں یا ایسی پالیسی نافذ کی ہیں جو ریاست بھر میں طلباء پر اسکولوں میں اسمارٹ فون کے استعمال پر پابندی عائد کرتی ہیں۔

آسٹریلیا کی حکومت نے پچھلے مہینے یعنی نومبر 2024ء کو سولہ سال تک کی عمر کے بچوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے پر پابندی کا قانون نافذ کر دیا ہے اور اس کی پارلیمنٹ نے دنیا کا سخت ترین قانون پاس کیا ہے۔ آسٹریلین وزیر برائے مواصلات میشیل رولینڈ (Michelle Rowland) کے مطابق ٹک ٹاک، فیس بک، انسٹاگرام ایکس (ٹیوٹر)، اسنیپ چیٹ وغیرہ پر 2025ء تک مکمل پابندی لگائی جائے گی۔ آسان الفاظ میں سولہ سال کی عمر کے بعد ہی کوئی آسٹریلیا میں سوشل میڈیا کو استعمال کر سکے گا اور یہ پابندی صرف سوشل میڈیا کے اسکولوں میں استعمال تک محدود نہیں ہے، بلکہ چوبیس گھنٹے سولہ سال کے کم عمر بچوں کو مکمل طور پر سوشل میڈیا استعمال کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ کیوں ہمارے حکومتی عہدے داروں، سیاستدانوں، پالیسی بنانے والوں کے ساتھ ساتھ اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیوں سے جڑے لوگوں کو یہ ترقی یافتہ ممالک کے قوانین اور پالیسیاں نظر نہیں آتیں؟

چند گزارشات

آخر میں ہم اس مضمون کے ذریعے ٹیکنالوجی کے حوالے سے چند گزارشات پیش کرنا چاہیں گے:

∗.. اسکولوں کے اندر بچوں کے موبائل فون اور اس سے جڑی ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے لانے اور استعمال پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ یہ صرف راقم کی تجویز نہیں ہے، بلکہ یہ تجویز اقوام متحدہ کی تعلیمی، علمی وثقافتی تنظیم یونیسکو کی جانب سے گلوبل ایجو کیشن مانیٹرنگ رپورٹ 2023ء میں دی گئی ہے اور اس پر کئی ترقی یافتہ ممالک نے عمل بھی کیا ہے اور ان ممالک میں اسکولوں میں بچوں کے موبائل فون لانے پر پابندی ہے۔
ان ممالک میں برطانیہ، آئرلینڈ، اسپین بیلجیم اور دیگر کئی ممالک شامل ہیں۔

∗.. بچوں اور نوجوانوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور اس کے لیے مناسب قانون سازی کی جائے۔ آسٹریلیا کی ہی مثال دیکھ لی جائے کہ وہاں پر سولہ سال سے کم عمر بچوں پر سوشل میڈیا کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

∗.. پرائمری وسیکنڈری اسکولوں میں بچوں کی ذہنی نشوونما کے لیے انہیں جدید ٹیکنالوجیز سے دور رکھا جائے، اس کے لیے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جو قانون سازی اور پالیساں نافذ کی گئی ہیں، اُن کو دیکھ لیا جائے۔ 

عصر حاضر سے متعلق