اخلاق واعمال کی پستی سے جن غریبوں کو نقصان پہنچتا ہے‘ جن شریفوں کی مٹی پلید ہوتی ہے اور جن ارباب فضل وکما ل کو روحانی اذیت ہوتی ہے وہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ”حسن اخلاق“ کتنی اہم چیز ہے اور اس کے بغیر دنیا کا وجود سڑی ہوئی ایک لاش کے مانند ہے کہ نہیں؟
اخلاق واعمال کی بلندی اور پاکیزگی کے لیے اصولی بات یہ ہے کہ صرف دنیاوی قانون کسی قوم اور ملک کے اخلاق اور اعمال میں انقلاب نہیں پیدا کر سکتا ہے‘ اس کے لیے ضرورت ہے کہ آخرت کا عقیدہ دلوں میں راسخ کیا جائے اور بتایا جائے کہ آدمی کو ایک دن اپنے اعمال واخلاق کا حساب کتاب دینا ہے، ہمارے سارے کام رب العالمین کی نگاہوں کے سامنے ہیں، اس سے کوئی پوشیدہ نہیں رہ سکتا، اللہ تعالیٰ کی خفیہ فوج انسان کے ساتھ لگی پھرتی ہے، جو آنکھوں سے اوجھل تو ضرور ہے، مگر ہے بلاشبہ۔
پھر لوگوں کے ذہن نشیں کیا جائے کہ ظاہر سے زیادہ باطن کی اصلاح کی ضرورت ہے،جو سارے جسم کا مرکزی نقطہ ہے،جب تک اس مرکزی حصہ کی اصلاح نہیں ہوتی،انسان کے اعمال واخلاق میں پاکیزگی نہیں آسکتی۔
”اسلام“ جو فطری دین ہے،انہی امور کی تعلیم دیتا ہے، وہ قول سے زیادہ عمل کو دیکھتا ہے اور زبان سے زیادہ قلب پر اس کی نگاہ رہتی ہے، کردار کے آگے گفتار کی کوئی حقیقت نہیں، وہ برہمن وشودر کی تفریق میں وقت برباد کرنے کے لیے تیار نہیں،وہ آنکھ بند کر کے اس کا بھی قائل نہیں کہ برہمن جو کرے اور کہے وہ بہتر ہے اور شودر اور نیچ ذات جو کام کرے وہ قابل نفریں ہے، اسلام کا قانون سب کے لیے یکساں ہے، امیر وغریب،شاہ وگدا، شہری ودیہاتی اور برہمن وشودر سب اس کی نگاہ میں انسان ہونے کی حیثیت سے برابر ہیں، ہاں! ان میں جس کے اعمال واخلاق پاکیزہ ہوں، عقائد ومعاملات درست ہوں اور ایمان وعمل صالح میں کوئی کھوٹ نہ ہو، وہی برگزیدہ ہے، وہی لائق ستائش ہے اور وہی نجات کا مستحق ہے۔
اللہ رب العالمین نے رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اخلاق واعمال کے ایک ایک گوشے پر روشنی ڈالی ہے، قانون وآئین کے روپ میں بھی اور پیغمبر اسلام کی سیرت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک عمل سے بھی، قرآن پاک اور اقوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو کہ اسلام نے انسانوں کے اعمال واخلاق کو سدھارنے کی کتنی عظیم الشان جدوجہد کی اور اس میں کس حدتک کام یابی حاصل ہوئی۔
رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جب دشمنان اسلام نے”دیوانہ“ہونے کی بات مشہور کی، تاکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر دھیان نہ دے سکیں تو قرآن نے اس کی تردید کرتے ہوئے اعلان کیا:
”اور آپ صلی الله علیہ وسلم بلند کردار کے حامل ہیں“ (القلم:1) جس کا ماحصل یہ تھا کہ جس کی تربیت”خلق عظیم“ پر ہوئی ہو‘ جو ہر معاملے میں اخلاق ومحبت کا ثبوت پیش کرتا ہو، جو اپنے جانی دشمنوں اور خون کے پیاسوں کے لیے دعائیں کرتا ہو اور رات دن اس فکر میں ہو کہ کس طرح وہ کفرو شرک کی ظلمت سے نکل کر ایمان وایقان کی روشنی سے فیض یاب ہو، اس سلسلے میں جان تک کی قربانی کے لیے تیار ہو، وہ پاگل کیسے ہوسکتا ہے؟
حضرت انس رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے اعمال واخلاق میں بڑھے ہوئے تھے، میں نے مسلسل دس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں ایک خادم کی حیثیت سے زندگی گزاری، مگر کبھی بھی مجھ کو اف تک نہیں کہا، حد یہ ہے کہ کسی کام پر یہ نہ فرمایا کہ تو نے کیوں کیا، اور نہ یہ فرمایا کہ کیوں نہیں کیا۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بے حیائی کی بات پسند فرماتے تھے اور نہ اس کو زبان پر لاتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے:”بلا شبہ تم میں بہترین وہ ہیں جو تم میں حسن اخلاق کے مالک ہیں۔“ (ریاض الصالحین،ص:304)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”قیامت کے دن مسلمان بندے کے ترازو میں حسن اخلاق سے بڑھ کر کوئی چیز وزنی نہ ہوگی۔“(ریاض الصالحین ص:304)
جس عمل کا تعلق قیامت کے دن سے ہو اور جو چیز میزان عمل میں تو لی جائے، اس کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ دراصل حساب کتاب کا وہی دن ہے اور اسی دن کی کام یابی سچی کا م یابی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سی چیز عموماً دخول جنت کا باعث ہوگی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” ایک اللہ کا ڈر، دوسرے حُسن خلق“۔
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”تم میں وہ لوگ ایمان میں مکمل ہیں، جن کے اخلاق واعمال سب سے اچھے ہیں اور تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے بال بچوں کے لیے بہتر ثابت ہو۔“(ریاض الصالحین:304)
حُسن خلق کا دوسرا نام نیکو کاری ہے، حدیث میں آیا ہے کہ ایک دن ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ نیکو کاری اور گناہ کی تعریف کیا ہے؟ سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” نیکو کاری حُسن خلق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹک پیدا کرے اور جس عمل سے لوگوں کے مطلع ہونے کوتو نا گوار سمجھے۔“(ریاض الصالحین،ص:203)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لوگوں اور جان دار چیزوں کے حقوق کی ادائی کا نام اخلاق ہے اور مشتبہ، نا جائز اور حرام کاری کا ارتکاب گناہ۔
لیکن جائز امور میں بھی ریا کاری کرنا، اخلاق کے منافی ہے، اسی طرح جائز کام اس طرح کرنا جس کا مقصد دوسروں کو نقصان پہنچانا ہو، حسن اخلاق کے منافی ہوگا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہے کہ حق باتوں میں جو ریا کاری ترک کردے، میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں، اسی طرح اس کے لیے جو مذاق سے بھی جھوٹ بولنے کی جرات نہ کرے اور جو اپنے اعمال واخلاق کو سنورے اس کے لیے جنت کے سب سے اونچے درجے کے لیے ضامن بن جاوٴ گا۔
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میری نظر میں سب سے زیادہ محبوب اور قیامت میں مجھ سے سب سے قریب بیٹھنے والا وہ شخص ہے جس کے اعمال واخلاق پاکیزہ ہوں، اور میری نظر میں سب سے زیادہ مبغوض اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ دور رہنے والے وہ اشخاص ہیں جو باتونی، بڑائی جتانے والے، لمبی چوڑی بات کرنے والے، رعب جمانے کے لیے بے تکے بولنے اور بیان دینے والے ہیں،،۔
حُسن خلق کی تعریف امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے عبداللہ بن مبارک سے یہ نقل کی ہے:
”خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا، بھلائی کرنا اور تکلیف دہ امور کو روکنا“۔(ریاض الصالحین ص:306)
قاضی عیاض کہتے ہیں کہ” حسن خلق“ لوگوں کے ساتھ خوبی‘ مسرت، تحمل اور محبت سے پیش آنے اور کبر ونخوت‘ شدت وغلظ‘ غیظ وغضب اور دارو گیر سے گریزاں رہنے کا نام ہے۔
شریعت نے حُسن خلق کی تعریف یہ کی ہے کہ:” حُسن خلق“ وہ ملکہ راسخہ ہے‘ جس کی وجہ سے افعال محمودہ بسہولت صادر ہوں اور فکروروٴیت کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ مومن ومسلم کے لیے حُسن خلق ضروری ہے، بلکہ ایمان کی سب سے بڑی پہچان ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی زندگی سرا پا حُسن خلق ہے۔پیغمبر اسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” کسی مسلمان میں دو خصلتیں جمع نہیں ہوسکتیں:ایک بخل‘ دوسرے بد خلقی۔“(سبل السلام ج:2ص: 272)
بزرگوں نے لکھا ہے کہ جن لوگوں میں بد خلقی پیداہو جاتی ہے‘ انہیں تو بہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی‘ بلکہ اس کی برائی بڑھتی ہی جاتی ہے اور ایک دن اس کو تباہ کر کے دم لیتی ہے‘ انسان چوں کہ اپنے اخلاق و اعمال کا محاسبہ نہیں کرتا‘ اس لیے اس کو احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کہاں جارہا ہے۔