الحمدلله نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ وتنوکل علیہ۔ ونعوذبالله من شرورِانفسنا ومن سیئات أعمالنا․ من یھدہ الله فلا مضل لہ۔ و من یضللہ فلاھادی لہ۔ ونشھد ان لا الٰہ الا الله وحدہ لا شریک لہ۔ ونشھد ان سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ․ ارسلہ الله الی کافة للناس بشیراً ونذیراً۔ وداعیا الیہ باذنہ وسراجاً منیراً․
بزرگانِ محترم!
دنیا اور آخرت دو چیزیں ہیں۔ آخرت کے بارے میں عام طور پرلوگوں نے یہ تصور باندھ رکھا ہے کہ آخرت تو آسمانوں کے اوپر ہے اور دنیا یہ ہے، یہ غلط ہے ،بلکہ ہماری آخرت اسی دنیا میں چھپی ہوئی ہے۔ اُسے نکالنا ہمارا کام ہے، کھانے پینے کے اور سونے جاگنے کے افعال، انہیں میں آخرت چھپی ہوئی ہے۔ اس کے ذریعے سے اپنی آخرت نکالو۔ یہ نہیں کہ آخرت کوئی الگ عالم ہے اور دنیا ترک کر و، تب جاکے آخرت میں پہنچو گے۔ دنیا میں رہ کر اس میں سے آخرت نکا لنا، یہ دانش مند کا کام ہے۔ یہ جو آپ نماز روزہ کرتے ہیں، بدن ہی سے تو انجام دیتے ہیں ،وہ بدن زمانے میں ہے یا مکان میں ہے، تو اس میں سارے دنیوی ہی افعال ہیں۔ اس سے جنت بن رہی ہے۔ جنت اس نماز سے ہی تو نکلی جو آپ نے بدن سے سرانجام دی، آخرت کوئی الگ تو نہیں تھی۔
یتیم کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور ہزاروں نیکیاں لکھی گئیں۔ وہ ہزاروں نیکیاں جنت ہی تو ہیں۔ تو اس دنیا ہی میں آخرت چھپی ہوئی ہے، کہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے، افعال صحیح ہو کے آئیں، جنت یہیں سے بن جائے گی۔ افعال غلط ہو کے آئیں تو جہنم یہیں سے بن جائے گی۔
حدیث میں فرمایا گیا اگر آدمی کھانا کھانے بیٹھے کھانا ایک طبعی فعل ہے۔ بھوک لگے گی تو آدمی خواہ مخواہ کھائے گا، لیکن اس نیت سے کھانے بیٹھے کہ قوت پیدا ہو گی تو عبادت کروں گا۔ اور”بسم الله“
سے شروع کرے ”الحمدلله کثیرا“
پر کھانا ختم کرے۔ فرماتے ہیں کہ اس کے پچھلے گناہ سب بخش دیے جائیں گے۔ حالاں کہ کھائی تو روٹی او رگناہ بخش دیے گئے، گناہوں کا بخشا جانا یہی تو آخرت ہے، اس لیے آخرت دنیا ہی میں ہوئی۔
حدیث میں ہے کہ دو بھائیوں نے مصافحہ کیا اور قلبی محبت سے کیا۔ دونوں کے منھ پر مسکراہٹ آگئی اور کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ فرماتے ہیں کہ ہاتھ جدا نہیں کرنے پائیں گے کہ پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ ایک طبعی فعل انجام دیا، مگر اس سے مغفرت ہوگئی ،بہرحال اس دنیا ہی سے ہماری آخرت نکلتی ہے۔
آخرت کے بارے میں اسلام اور دیگر مذاہب کا فرق
یہیں سے دوسرے مذاہب اور اسلام میں فرق پڑ جاتا ہے۔ دوسرے مذاہب یہ سمجھتے ہیں کہ آخرت دنیا سے بالکل الگ تھلک کوئی چیز ہے۔ جب تک ترک دنیا نہیں کرو گے آخرت نہیں ملے گی۔ مثلاً ہندومذہب ہے، اس میں سنیاس لیتے ہیں کہ گھر بھی ترک کیا، بیوی بچے بھی ترک کیے اور جاکر کسی کونے میں بیٹھ گئے، ساری لذتیں ترک کیں۔ اب سمجھتے ہیں کہ ہماری آخرت بن گئی۔
عیسائیوں کے ہاں ترک لذات ایک مستقل موضوع ہے کہ گرجا میں آدمی داخل ہو جائے اور یہ عہد کر لے کہ میں نکاح نہیں کروں گا۔ کسی سے ملنے بھی نہیں جاؤں گا۔ بالکل ترک دنیا کرکے ایک کونے میں بیٹھ جائے۔ اب سمجھتے ہیں کہ آخرت ملی۔
اسلام نے ان سب چیزوں کو رد کر دیا کہ یہ رہبانیت ہے۔ اسلام نے گوشے میں بیٹھ جانا، پہاڑوں میں بیٹھ جانا، سمندر کے کناروں پر اپنے آپ کو گرا دینا، اس سے روکا کہ اس سے آخرت نہیں بنتی۔ دنیا میں رہ کر، لوگوں میں رہ کر، ان کی اڑی کڑی جھیل کر اصلاح کی کوشش کرے، اس سے آخرت بنے گی، اسی کھانے اور پینے سے آخرت بنے گی۔ یہ نہیں کہ تم کھانا پینا چھوڑ دو۔
قرآن حکیم نے حکم دیا:﴿کلوا من الطیبٰتِ واعملوا صالحاً﴾
الله نے جو پاکیزہ چیزیں تمہارے لیے بنائی ہیں، انہیں استعمال کرو اور عمل صالح اختیار کرو۔ جتنی نیت سچی ہوگی اسی میں سے آخرت بنے گی ،یہ نہیں کہ کھانا پینا چھوڑ دو او رجنگل میں جا بیٹھو، تب آخرت بنے گی۔
اسی طرح لباس ہے تو بعض مذاہب میں ترکِ لباس ہے۔ صرف لنگوٹا باندھو، فرض لباس بھی ترک کیا۔ اسلام نے ناجائز قرار دیا کہ یہ رہبانیت ہے۔ گوشہ گیری ہے۔ یہ اسلام میں نہیں ہے۔ لباس پہنو، موٹا پہنو، اچھا پہنو، نیت اچھی رکھو۔ اسی میں سے آخرت نکلے گی۔ تو کھانا پینا، رہنا سہنا، مکان بنانا، اس سے اسلام نے نہیں روکا۔ مگر نیت صاف رکھنے کو کہا ہے۔ تھوڑی بہت زینت اور طبیعت کے موافق کرنے سے نہیں روکا۔ مگر نیت صاف رکھنے کو کہا ہے۔ اس سے یہی چیزیں آخرت بنیں گی۔ اور مذاہب میں تویہ ہے کہ ترک دنیا سے آخرت بنتی ہے۔ اسلام میں یہ ہے کہ دنیا میں رہ کر نیت صحیح کرنے سے آخرت بنتی ہے۔ انہی افعال میں سے آخرت بنے گی۔
اب مکان ہے۔ گیاہ میں ہم نے دیکھا کہ ان لوگوں کے ہاں خدا رسیدہ وہ ہے جس کا نہ گھرہو ،نہ در ہو۔ صبح کے وقت ان کے ہاں ایک لشکر نکلتا ہے۔ وہ گھر گھر کھانا مانگتے ہیں۔ ان کے ہاں کھانا وانا نہیں پکتا، کسی نے بھیک دے دی، کھا لیا، اسلام نے اسے ممنوع قرار دیا کہ یہ ذلت نفس ہے۔ مومن کا یہ کام نہیں کہ اپنے نفس کو ذلیل کرے۔ بلکہ باوقار رہے۔ تو کھائے بھی، پیے بھی، پہنے بھی، طبعیات کو استعمال کرے اور نیت یہ رکھے کہ اپنی آخرت کے لیے کر رہا ہوں۔ حکم خدا وندی ہے تعمیل حکم کر رہا ہوں۔ وہی چیز اجر کا ذریعہ بنے گی۔ اسلام نے یہ نہیں کہا کہ تم بھیک منگے بن جاؤ۔ دنیا کے اوپر بار بنو۔ بلکہ کماؤ۔ اور کسب حلال کو فرض قرار دیا۔ تجارت کرو۔ زراعت کرو۔ دنیا کماؤ، اس سے اپنی خدمت کرو، اپنے بھائیوں کی بھی خدمت کرو۔ یہ راستہ دکھلایا ،نہ یہ کہ سب چیزیں چھوڑ کر پہاڑ کے گوشے میں جاکر بیٹھ جاؤ۔
بعض مذاہب میں یہ ہے کہ اعضاء کو مفلوج کردو تو آخرت بن جاتی ہے۔ مثلاً ہاتھ اونچا کر دیا، وہ خشک ہو گیا، اب وہ بے کار ہو گیا اور وہ یہ سمجھے کہ اب آخرت بنی، اسلام نے کہا یہ لغویت ہے، اس سے آخرت کا کیا تعلق؟
یا بولنا چھوڑ دیا اس سے سمجھتے ہیں کہ آخرت بنی۔ اسلام نے کہا کہ یہ آخرت کیسی کہ ایک قوت کو ضائع ہی کر دیا۔قوت سے کام لینے کا نام آخرت ہے، نہ کہ قوت کو معطل چھوڑ دینے کا نام آخرت ہے۔
میرا ایک دفعہ گیا ہ میں جانا ہوا، تو وہاں ایک بہت بڑا اور اونچا مندر ہے۔ اس میں بدھ کی تصویریں ہیں۔ اس کے بت رکھے ہوئے ہیں۔ وہاں ہم نے دیکھا کہ بدھ کا ایک بہت بڑا بت ہے اور لوگ اس کے ارد گرد گھی کے چراغ جلارہے ہیں۔ بہت سے پجاری چراغ جلا کر جارہے ہیں۔ میں نے ایک پجاری سے پوچھا۔ اس گھی کو تم کیوں ضائع کر رہے ہو؟ کوئی آدمی کھاوے گا تو اس کے بدن میں قوت پیدا ہو گی، اسے کیوں خواہ مخواہ ضائع کر رہے ہو…؟ اب وہ سنتا تو ہے، مگر بولتا نہیں۔ میں سمجھا کہ شاید یہ بہرہ ہو گا، میں نے ذرا زور سے کہا۔ وہ پھر بھی دیکھ رہا ہے، جواب کوئی نہیں دیتا۔ میں نے اور زور سے کہا، تو لوگوں نے مجھ سے کہا کیوں اپنا زور صرف کر رہے ہو؟ یہ جواب نہیں دے گا۔ ان کے ہاں چپ رہنا ایک عبادت ہے ۔ یہ شخص چالیس برس سے نہیں بولا اور یہ پچاس برس سے نہیں بولا۔ تو زبان ایک قوت ہے ،اس کو ضائع کر دینے کا نام عبادت نہیں ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ اس قوت سے ہی تو آخرت کماؤ گے۔ قوت ضائع کر دی، آدمی ناقص رہ گیا تو آخرت بھی ناقص۔ زبان کو استعمال کرو، تلاوت کلام پاک میں، درود شریف پڑھنے میں اور عبادت میں، لوگوں کی اصلاح میں ، نیک مشورے دینے میں اور سچی باتیں کہنے میں ۔ اس میں قوت کو استعمال کرو۔ تو آخرت بنے گی۔ نہ یہ کہ قوت کو ختم کرو دو اور بے کار بیٹھ جاؤ !اس سے تو بدی بنے گی۔
ہاتھ ہے، آپ اس کے ساتھ مصافحہ کریں گے، اجر ملے گا۔ آخرت بنے گی۔ قرآن کریم کو ہاتھ لگائیں گے، اجر ملے گا۔ بیت الله شریف کو چھوئیں گے اجر ملے گا ،ہاتھ ہو گا جبھی تو اجر ملے گا او راگر ہاتھ کو اٹھا کر خشک کر دیا، قوت بھی ختم او راجر بھی ختم ہو گیا۔ تو جتنے اجروثواب کے راستے تھے وہ سارے بند ہوگئے۔
اسی طرح پیر کو مفلوج کر دیا۔ پیر ہو گا تو ہی مسجد کی طرف جائیں گے۔ دوستوں کے گھر میں جائیں گے، عبادت گاہوں میں بھی جائیں گے۔ مجالس وعظ میں بھی جائیں گے۔ اس سے اجروثواب کے ڈھیر ملیں گے اور جو پیر کوکلہاڑا مار کے ختم کر دیا تو نہ مجلس رہی۔نہ مسجد کی طرف جانا رہا، نہ حج رہا۔ وہ کیا خاک اجر ملا؟
تو تمام مذاہب نے تو یہ کہا ہے کہ دنیا ترک کرو۔ تب آخرت ملے گی۔ بدن کو کھودو تو آخرت ملے گی۔ اسلام کہتا ہے کہ دنیا میں رہ کر آخرت پیدا کرو۔ ترک دنیا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دنیا کی نعمتوں کو چھوڑ دو۔ ہاں !اس میں مبالغہ مت کرو، غلو مت کرو۔ حد سے مت گزرو۔ اعتدال کے ساتھ استعمال کرو۔ اس سے اپنا بھی کام چلاؤ، اپنے بھائیوں اور عزیزوں کی بھی خدمت کرو۔ تمہاری آخرت بنے گی۔ تو یہ نیت پر او رافعال اختیاری پر ہے کہ مرضی خدا وندی کے مطابق وہ افعال ہوں گے تو دنیا ہی میں آخرت بنے گی۔
افعال دنیوی کے بارے میں اسلام کا نظریہ
اب دنیا کے بڑے افعال سونا، جاگنا، کھانا، پینا، رہنا، سہنا اورمکان بنانا۔ ان سب کو حق تعالیٰ نے نعمت شمار کیا ہے، فرمایا:﴿قل من حرم زینة الله التی اخرج لعبادہ والطیبٰت من الرزق﴾
اے پیغمبر! کون ہے جو الله کی دی ہوئی نعمتوں کو اپنے اوپر حرام کرے اس نے جو پاکیزہ غذائیں او رلباس دیے ہیں۔ کون ہے جو انہیں حرام کرے؟ ممانعت فرما دی کہ انہیں حرام مت قرار دو۔ البتہ حدود بتلا دیں کہ ریشم کا کپڑا ہے۔ مرد کے لیے ناجائز، عورت کے لیے جائز۔ زیورات میں سونا، چاندی عورت کے لیے جائز۔ مرد کے لیے ناجائز تو حدود بتلا دیں۔ ان حدود میں رہ کے استعمال کیے جاؤ۔
مکان ہے، اس کے بارے میں الله نے احسان جتلایا اور فرمایا کہ:﴿والله جعل لکم من بیوتکم سکنا﴾
الله نے تمہارے گھروں میں تمہارے لیے سکون اور سکونت رکھی ہے۔ گھر بناؤ، استعمال کرو۔ اور پھر آگے کپڑوں کا بھی گھر ہوتا ہے، یعنی کپڑے کا خیمہ اور چمڑوں کا گھربھی ہوتا ہے یعنی چمڑے کا خیمہ۔ پتھر او راینٹ کا گھر ہوتا ہے۔ ساری قسمیں گنوا کے احسان جتلایا۔ احسان اسی پر جتلاتے ہیں جو نعمت ہوتی ہے۔ مصیبتوں پر تو احسان نہیں جتلایا جاتا۔ مکانوں کو الله نے نعمت قرار دیا۔ تو کون ہے جو الله کی نعمتوں کو رد کرے؟۔ حدود میں رہ کر انہیں استعمال کرو۔ مبالغہ اور غلو نہ کرو۔ ایک عام شریعت میں جو راحت کے سامان ہیں۔ انہیں آدمی اپنے لیے مہیا کرے۔ تو کھانا ہو، لباس ہو… بلکہ ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ: ”ان الله یحب ان یریٰ اثر نعمتہ علی عبدہ“
الله اپنے جس بندے کو نعمت دے، تو اسے یہ بھی پسند ہے کہ اس نعمت کا اثر بھی اس بندے پر دیکھے۔ تو ڈھنگ کا کھانا ہو، ڈھنگ کا پہننا ہو، ڈھنگ کا رہنا ہو، یہ نہیں کہ پھٹے حال میں آدمی رہ رہا ہے۔ کوڑے کباڑ میں کھڑا ہوا ہے، نہ صفائی نہ ستھرائی۔ مکان بنانے کا حکم دیا۔صفائی ستھرائی کا حکم دیا۔
حدیث میں فرمایا:
اپنے گھروں کے صحن چوک بھی صاف رکھو، دالان کو صاف رکھو، سڑک تک کو صاف رکھو،لباس کی صفائی کا حکم دیا۔ صفائی اورستھرائی اسلام کا ایک مستقل موضوع ہے، یہ چیزیں چھڑائی نہیں گئیں۔ حدود بتلادی گئیں کہ ان سے آگے نہ گزرو تو ہماری آخرت اسی دنیا ہی سے نکلتی ہے۔ اسی بدن ہی میں سے تو آخرت پیدا ہو گی۔
اعمال ایمانی کی خوش بو
حدیث میں ہے کہ جب موت کا وقت آتا ہے۔ ملائکہ علیہم السلام روح کھینچنے کے لیے آتے ہیں تو ہاتھ پیروں کو سونگھتے ہیں کہ اس میں ایمان کی خوش بو کتنی ہے۔ اعضاء کو سونگھتے ہیں۔ کیوں کہ ایمانی افعال سرانجام دینے سے بدن میں خوش بو قائم ہو جاتی ہے، یہاں ہمیں محسوس نہیں ہوتی۔ آخرت میں محسوس ہو جائے گی۔
حدیث میں ہے کہ:” خلوف فم الصائم اطیب عند الله من ریح المسلک“
روزے میں جب آدمی نہیں کھاتا تو منھ میں ایک قسم کی بو پیدا ہو جاتی ہے۔ تو فرماتے ہیں کہ الله کے نزدیک یہ منھ کی بو مشک سے بھی زیادہ خوش بودار ہے۔ یہاں تو یہ بدبو ہے، وہاں یہ خوش بو۔ وہ خوش بو در حقیقت روزے کی ہے او رروزے میں خوش بو ایمان سے ہے ،ورنہ ایمان نہ ہو تو روزہ فاقہ ہے، وہ ایمان ہی کی خوش بو ہے، ملائکہ علہیم السلام بدن میں سے اسی خوش بو کو سونگھتے ہیں کہ کتنی خوش بو آرہی ہے۔ بعض مرتبہ ایسا ہو گا کہ آدمی کے ساتھ اعمال نہیں ہیں او رملائکہ علیہم السلام نے بھی سمجھ لیا کہ یہ جہنم کے لائق ہے اور وہ ملائکہ آگئے جو کفار کی روح قبض کرتے ہیں ۔ ان کی شکلیں ہیبت ناک ہو ں گی، وہ اپنے ہاتھوں کو اس کے بدن میں داخل کرتے ہیں، معلوم ہوا کہ پنڈلی سے ایک عمل چپکا ہوا تھا۔ اس نے کسی موقع پر سبحان الله کہا ہے۔ نیکی ہاتھ لگ جاتی ہے تو ملائکہ رحمت کہتے ہیں کہ تم ہٹو۔ ہم اس کی روح قبض کرتے ہیں۔ تو وہ اعمال اسی بدن ہی میں سے سر زد ہوئے۔ پنڈلی میں سے عمل نکلے گا۔ جگر میں سے نکلے گا۔ ایسا ہوتا ہے کہ بعض دفعہ آدمی دل کی قوت سے عمل کرتا ہے تو دل پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ کھڑے ہو کے کوئی عمل کرے تو گردوں کی طاقت سے آدمی کھڑا ہوتا ہے، اس عمل کا اثر گردوں پر ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی بڑی بے جگری سے لڑتا ہے۔ خوب اس نے جہاد کیا۔ اس عمل کا تعلق جگر سے ہوگا۔ تو ہر عضو سے خاص اعمال متعلق ہیں۔ اور ملائکہ وہ پہچانتے ہیں۔ تو انہیں اعضا میں اعمال کو تلاش کریں گے اور وہ کہیں گے کہ اس کا عمل پنڈلی میں چھپا ہوا تھا۔
لہٰذا یہ صاحب نیکی ہے، ملائکہ عذاب اس کی روح قبض نہیں کرسکتے۔ ہم اس کی روح قبض کریں گے۔ تو اسی عمل اور بدن ہی سے آخرت بنی۔
دربارِ خداوندی کی پہلی پیشی
اور یہ بھی ہے کہ مرنے کے بعد مومن آدمی کی روح آسمانوں پر چڑھ جاتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام پہلے آسمان پر اس کا استقبال کرتے ہیں۔ اور ستر ہزار ملائکہ علیہم السلام کے ہجوم کے ساتھ استقبال ہوتا ہے۔ ملائکہ صف باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ قطار کے بیچ میں سے اعزاز واکرام کے ساتھ گزرتی ہے۔ پھر آسمان دوم کے مقربین اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ پھر آسمان سوم کے مقربین اس کا استقبال کرتے ہیں … یہاں تک کہ عرش پر پہنچ جاتی ہے۔ اور وہاں روح سجدہ کرتی ہے۔ حق تعالیٰ ابتدائی خطاب ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ فرماتے ہیں، کیوں آیا؟ کیسے آیا؟ کیا لے کے آیا؟
ایک عالم ہیں، ان کی وفات ہوئی۔ تو بعض عارفین پر ان کا حال منکشف ہوا۔ حق تعالیٰ کے سامنے ان کی پیشی ہوئی تو ڈانٹ کر فرمایا، کیوں آیا ؟ کیا لے کر آیا؟ انہوں نے کہا میں ڈیڑھ سو قرآن شریف ختم کرکے لایا ہوں۔ فرمایا ایک بھی قبول نہیں۔ کہا اتنے روزے رکھے۔ فرمایا یہبھی قبول نہی۔ کہا اتنے تہجد پڑھے۔ فرمایا یہ بھی قبول نہیں۔ اب یہ حیران کہ کیا چیز پیش کروں۔ اور اِدھر سے مطالبہ کہ کیوں آیا؟ کیا لے کر آیا؟ اخیر میں انہوں نے کہا کہ میں آپ کی رحمت کا سہارا لے کر آیا ہوں او رکچھ نہیں! فرمایا۔ اب بات ٹھکانے کی کہی۔ میری رحمت تیرے اوپر واجب ہوگئی ۔کسی وقت یہ نیت کی ہوگی وہ جاکر کام آگئی۔
وسعت ِ مغفرت خداوندی
تو آدمی اپنے قلب کے رخ کو صحیح رکھے۔ عملیکوتاہیاں ہر ایک سے ہوتی ہیں ہر، ایک میں کچھ نہ کچھ گناہ، بڑا ہو یا چھوٹا، ضرور ہوتا ہے، سوائے انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کے، وہ تو معصوم ہیں، نبی کے بعد کوئی ایسا نہیں جس سے کوئی زلت یا خطا نہ ہوتی ہو۔ اسی کو ایک حدیث میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”ان تغضر اللھم تغفرجما وای عبد لک لا المَّا․
یا الله! جب آپ کو بخشنا ہی ہے تو سارے گناہ کیوں نہیں آپ بخشش دیتے؟ کون بندہ ہے جس نے کبھی گناہ نہ کیا ہو؟ آپ کے سامنے سارے گنہگار ہی ہیں۔
اور حدیث میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی۔ فرمایا:”رب مغفرتک اوسع من ذنوبی، ورحمتک ارجیٰ عندی من عملی“
اے میرے پروردگار! تیری مغفرت میرے گناہوں سے بہت وسیع ہے۔ کہاں تک گناہ کروں۔ ہزار برس بھی کروں گا تو محدود ہوں گے اور تیری رحمت کی کوئی حد ہی نہیں۔ میرے گناہوں کی تیری رحمت کے سامنے کیا قدر وقیمت ہے۔ نیز میرے عمل محدود ہیں۔ بلکہ کوئی چیز نہیں، مگر تیری رحمت ان سے بہت وسیع ہے۔
توبہ کا راستہ نہ ترک کیا جائے
بہرحال کوئی بندہ بشر ایسا نہیں جس سے کوئی غلطی اور خطا نہ ہوئی ہو۔ انبیاء علیہم السلام اس سے بَری ہیں۔ اسی واسطے فضل ہی پر مدار ہے۔ جب توجہ فرما دیں گے، جبھی مغفرت ہو گی۔ نیت اپنی یہ ہونی چاہیے کہ آدمی حق تعالیٰ پر بھروسہ کرے، جب خطاء ہو، توبہ کرے۔ گناہ سرزد ہوا فوراًتوبہ کر لے، تاکہ کھاتہ صاف ہوتا رہے تو اصل چیز نیت ہے کہ آدمی کا رخ صحیح ہونا چاہیے۔
ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے ،جو حدیث قدسی ہے کہ:
اے بندے! اگر تو میرے پاس اتنے گناہ لے کر آئے کہ زمین اور آسمان تیرے گناہوں میں چھپ جائیں تو میں اتنی اتنی ( گناہوں سے کہیں بڑھ کر) مغفرت لے کر تجھ سے ملاقات کروں گا۔ بشرطیکہ میری عظمت تیرے دل کے اند ر ہو۔ تو اصل چیز عظمت خداوندی ہے۔ آدمی وہ قائم رکھے۔ جو فادار ہوتا ہے وہ غلطی بھی کرتا ہے تو آقا کہتا ہے کہ اس کو معاف کیا جاسکتا ہے، اس لیے اگر گناہ سر زد ہو، فوراً توبہ کرے۔ تاخیر ہر گز نہ کرے۔ کیوں کہ اگر گناہ کیا اور وہ دل پہ جم گیا۔ پھر گناہ کرتا رہا۔پھر توبہ کی توفیق سلب ہو جاتی ہے۔ گناہ کے بعد معافی مانگ لے۔ اس سے قلب زنگ آلودہ نہیں ہوتا اور معصیت دھل جاتی ہے۔
حدیث میں فرمایا گیا کہ ایک آدمی نے بہت بڑا گناہ کیا اور ندامت ہوئی تو کہا ۔ ” یا رب!“… ابھی یہ نہیں کہا کہ میری مغفرت کر دیجیے۔فقط” یا رب! کہا۔ فوراً حق تعالیٰ فرماتے:”ایعلم ان لہ ربّاً یواخذہ؟!“
اچھا یہ جان گیا کہ اس کا بھی کوئی رب ہے جو اس کی پکڑ کرے گا؟! فرمایا اگر یہ جان گیا تو قبل اس کے کہ مغفرت مانگے۔ اس سے پہلے ہی مغفرت کر دیتے ہیں۔ حضور صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کی مغفرت ہو گئی، آکر پھر وہی گناہ کیا جو پہلے کیا تھا۔ لیکن پھر ندامت ہوئی۔ پھرجاکے”یا رب“ کہا۔ پھر مغفرت ہو گئی۔ پھر وہی گناہ کیا… حضور صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اے لوگو! تم گناہ کرتے کرتے تھک جاؤ گے۔ الله بخشتے بخشتے نہیں تھکیں گے۔ الله کی رحمت بہت وسیع ہے۔ اس لیے آدمی سے جب غلطی ہو، فوراً توبہ کرے، بس معاملہ صاف ہو گیا۔
اور یہ ایسا ہی ہے جیسے راستے پر لگا ہوا آدمی ٹھوکر لگی، گر پڑا۔ اُٹھا، کپڑے جھاڑ کر پھر چلنا شروع کر دیا۔ پھر گر پڑا۔ پھر چلنا شروع کر دیا۔ بالآخر منزل تک پہنچ جا ئے گا۔ اور جس نے گرتے ہی راستہ ہی بدل لیا۔ وہ نہیں پہنچے گا۔ تو راستہ نہ چھوڑا جائے۔ جس وقت گناہ سرزد ہو، توبہ کرے۔ ایک نہ ایک دن منزل پالے گا۔
اسی لیے ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ :”سددوا وقاربوا واغدوا وروحوا وشيء من الدلجة“
راستے پر لگے رہو۔ اعتدال کے ساتھ چلتے رہو، منزل کھوٹی مت کرو کہ منزل چھوڑ کے کسی سبزہ زار کے اوپر بیٹھ گئے۔ کسی باغ میں بیٹھ گئے، بلکہ راستہ پر چلتے رہو۔ ایک نہ ایک دن پہنچ جاؤ گے۔
توبہ کی قوت
حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب آدم علیہ السلام اور شیطان کی دشمنی ٹھن گئی تو شیطان آدم علیہ السلام کا حاسد اور فریبی دشمن تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو تاج خلافت پہنا دیا گیا۔ جنتوں کے وعدے دیے گئے۔ تو شیطان کو فکر ہوئی، اُس نے کہا۔ یا الله! آدم بہرحال میرا دشمن ہو گیا، میں اس کا دشمن۔ اس کے پاس عقل بھی ہے او راسباب ہدایت بھی ہیں۔ یہ تو میرا ناطقہ بند کر دے گا۔ کچھ قوت مجھے بھی دے دیجیے گا کہ میں اس پر غالب رہوں۔
حق تعالیٰ نے فرمایا:” ہم نے تجھے اکثریت کی قوت دی“۔ آدم علیہ السلام کا اگرایک بیٹا ہو گا۔ تو تیرے دس بیٹے ہوں گے۔ اس کے سو ہوں گے، تیرے ایک ہزار ہوں گے۔ تو ہمیشہ اکثریت میں رہے گا۔ یہ ایک ارب ہوں گے تو دس ارب ہوگا۔
مگر وہ بھی بڑا ہوشیار ہے۔ اس نے دیکھا کہ بعض دفعہ تو اقلیت بھی اکثریت پر غالب آجاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ اکثریت ہی کاغلبہ ہو اس نے عرض کیا۔
یا الله! بے شک میں اکثریت میں ہو گیا۔ لیکن اگر طاقت ور اقلیت ہو، وہ تو اکثریت پر غالب آجاتی ہے۔ اس لیے مجھے اور طاقت دیجیے۔
فرمایا: تجھے یہ طاقت دیتے ہیں کہ تو آدم کے بدن میں اس طرح سرایت کر سکے گا جیسے خون رگوں میں دوڑتا ہے۔
کہنے لگا۔ اب میں اُسے پچھاڑ سکوں گااس لیے اُس کے اندر گھس کے قلب میں وسوسے ڈالوں گا، دماغ کو خراب کروں گا اور جو چاہے اندر جاکے کروں گا ۔ اب مجھے طاقت مل گئی اور وہ مطمئن ہو گیا۔
اب حضرت آدم علیہ السلام کو فکر پڑی کہ اس کم بخت کی یہ طاقت کہ میرے اندر گھس جائے، میرے اندر تو یہ طاقت نہیں کہ اس کے اندر گھس سکوں تو یہ غالب رہے گا اور سب کو جہنمی بنا دے گا۔ مجھے بھی تو کوئی قوت دیجیے۔ ( میں بھی اس کا مقابلہ کرسکوں؟)
حق تعالیٰ نے فرمایا کہ:” آدم کو بھی ہم ایک طاقت دیتے ہیں کہ شیطان کی ہزا ربرس کی کارروائیاں ایک دم میں سب ملیامیٹ ہو جائیں گی۔ اور وہ ایسے چت ہو گا کہ چاروں شانے لگ جائیں گے۔“
کفر تک کر لو۔ توبہ نصیب ہو، ایک منٹ میں سارا کفر ختم ہو جائے گا۔ اس نے سو برس کفر کرایا۔ تم نے ایک سچی توبہ کی۔ وہ سارا سو برس کا کفر ختم ہو جائے گا۔ اس کی ساری کارستانیاں ختم ہو جائیں گے۔ تو توبہ میں اتنی بڑی طاقت ہے کہ شیطان بھی اس سے عاجز ہے۔ اس لیے آدمی توبہ نہ چھوڑے۔ ذراسی بات ہوئی فوراً توبہ کرے۔ بلکہ استغفار کو مستقل تسبیح کے طور پر پڑھے۔ کم از کم سو دفعہ روزانہ استغفار کرے۔
”استفغر الله تعالیٰ ربی من کل ذنب واتوب إلیہ“․
سو دفعہ پڑھ لے۔ سو گناہ نہیں کرے گا، مگر سو استغفار ہوجائیں گے۔ اس کے گناہ ختم ہوتے رہیں گے اور یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، صرف دس منٹ کی بات ہے۔ صبح کی نماز کے بعد اگر سو دفعہ استغفار پڑھ لے۔ تو کوئی محنت نہیں، مشقت نہیں۔ دن بھر میں آدمی سو گناہ نہیں کرتا، مگر توبائیں(توبہ کی جمع) سو ہو گئیں۔ ان شاء الله سب گناہ ختم ہوجائیں گے۔
بہرحال قلب کا رخ صحیح رکھے۔ اعتدال کے ساتھ چلتا رہے، جب گناہ ہو معافی مانگ لے۔ ایک نہ ایک روز منزل پر پہنچ جائے گا۔
اب میں ختم کرتا ہوں۔ دعا کیجیے، الله تعالیٰ ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلائے۔ حسن اخلاق نصیب فرمادے۔ اور خاتمہ بالخیر فرمادے۔ آمین!
واٰخر دعوانا ان الحمدرب العٰلمین․