دین ِاسلام کا اپنا ایک تشخص اور اپنی ایک شناخت ہے، جو اسے دیگر مذاہب سے مذہبی اور تہذیبی اعتبار سے ممتاز کرتی ہے،یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے اپنے مذہب اور اپنی تہذیب و ثقافت سے جڑا رہنا ازحد ضروری ہے۔ اس باب سے متعلق احادیث کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو سخت ناپسند کرتے تھے کہ کوئی مسلمان اسلامی تہذیب و ثقافت کو چھوڑ کر غیروں کی نقل کرے یا ان کی مشابہت اختیار کرے؛اسی لیے غیروں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے؛لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت میں تشبہ (دوسروں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے)کی ممانعت کسی تعصب پر مبنی نہیں ہے، بلکہ غیرت ، حمیت اور اسلامی خصوصیات وامتیازات کے تحفظ کے لیے ہے، اس لیے کہ کوئی قوم اس وقت تک قوم نہیں کہلا سکتی جب تک اس کی خصوصیات اور امتیازات پائیدار اور مستقل نہ ہوں۔
آج اسلامی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے جو مسائل ہمیں درپیش ہیں ان میں ایک اہم مسئلہ تشبہ کا بھی ہے،غیر شعوری طور پر مسلمان ایسے بہت سے امور میں غیروں کی تہذیب سے متاثر ہوتے جا رہے ہیں جہاں انھیں اپنا دامن محفوظ رکھنا چاہیے تھا،ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو تشبہ کے احکام و مسائل سے واقف کرایا جائے،مساجد کے منبر ومحراب سے اسے سمجھایا جائے اور اصلاح معاشرہ کے جلسوں میں اسے مستقل عنوان دیا جائے،اسی مناسبت و ضرورت کے پیش نظر ذیل میں کچھ اصول اور ضروری باتیں اختصار کے ساتھ درج کی جاتی ہیں؛تاکہ مسلم سماج میں پھیلی ہوئی مشابہت کا شرعی جائزہ لیا جا سکے،اگر ان اصول و قواعد کو سمجھ لیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے قوی امید ہے کہ مسلمان اپنی تہذیب،اپنا تمدن،اپنی سنت اور اپنا تشخص و امتیاز برقرار رکھنے میں کام یاب ہو سکے گا۔
تشبہ کی حقیقت
لغوی اعتبار سے لفظ التشبہ مشابہت سے ماخوذ ہے اورمشابہت نام ہے:مماثلت، نقل، تقلید اور پیروی کا۔ نیز مشابہت سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آپس میں ملتی جلتی ہوں، لہٰذا جب یہ کہا جائے کہ فلاں نے فلاں کی مشابہت اختیار کی تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی نقل اور پیروی اختیار کر کے اس جیسا ہوگیا۔بالفاظ دیگر اپنی حقیقت ،اپنی صورت، ہیئت اور وجود کو چھوڑ کر دوسری قوم کی حقیقت ، اس کی صورت اختیار کرنے اور اس کے وجود میں مدغم ہو جانے کا نام تشبہ ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے ایک فتوی میں ہے:
تشبہ لغت میں کسی جیسا بننے اور اس کی مماثلت اختیار کرنے کو کہتے ہیں اصطلاح میں اس کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں :
اپنی حقیقت ،صورت اور وجود کو چھوڑ کر دوسری قوم کی حقیقت، صورت اور وجود میں مدغم ہوجانا تشبہ کہلاتا ہے ۔
اپنی ہستی کو دوسرے کی ہستی میں فنا کردینے کو تشبہ کہا جاتا ہے۔
اپنی ہیئت اور وضع کو تبدیل کرکے دوسری قوم کی وضع اختیار کرلینا تشبہ کہلاتا ہے ۔
اپنی شانِ امتیازی کو چھوڑ کر دوسری قوم کی شانِ امتیا زی کو اختیار کرلینا تشبہ کہلاتا ہے ۔
اپنی اور اپنوں کی صورت وسیرت کو چھوڑکر غیروں اور پرایوں کی صورت اور سیرت اپنا لینا تشبہ کہلاتا ہے ۔(آن لائن دارالافتاء ،دارالعلوم دیوبند:Fatwa:349-325/L=5/1442)
تشبہ کے اصول
یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ ایک چیز ہے غیر اختیاری تشابُہ اور ہم آہنگی جیسے شکل و صورت ،زبان و لغت ،علاقہ و وطن اور کھانے پینے کی چیزوں میں فطری اور پیدائشی یکسانیت ۔دوسری چیز ہے کسی قوم یا فرد سے مرعوب ہو کر اس کی عادت یا خصوصیت کی اتباع اور نقالی،ظاہر ہے پہلی صورت میں کوئی حرج نہیں ہو سکتا ؛ کیوں کہ یہ فطری امور ہیں اور مسئلہ تشبہ کی بنیاد ہی فطرت کی حفاظت اور باغیانِ فطرت کی مخالفت پر ہے۔
قاری محمد طیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں:
اضطراری امور سے مراد وہ امور ہیں جن کے ایجاد و عدمِ ایجاد میں انسانی اختیارات کو کوئی دخل نہیں ہوتا، مثلاً:انسان کی خلقی اوضاع واطواراور جبلّی اقتضاء ات، یعنی اس کے اعضاء ِ بدن ، چہرہ مہرہ، پھر اس کے ذاتی عوارض، مثلاً: بھوک پیاس لگنا، اس اندرونی داعیہ کی بنا پر کھانے پینے پر مجبور ہونا،اس میں تلبُس یا تن پوشی کا فطری داعیہ،اس کا قدرتی طور پر مدنی الطبع بن کر پیدا ہونا،اس کا اپنے رب کی معرفت و عبادت پر مفطور ہونا وغیرہ یقیناً اس کے اختیاری امور نہیں۔ اگر وہ نہ بھی چاہے ، تب بھی یہ جذبات اس کے دل پر ہجوم کرتے رہتے ہیں… ظاہر ہے کہ ایسے امور میں تصرف کرنے کے لیے شریعت اسے کوئی خطاب نہیں کرسکتی،یعنی یہ امور اگر مسلم و کافر میں مشترک ہیں تو منعِ تشبہ کے ذریعہ اس اشتراک کو مٹانے کی کوئی سعی نہیں کی جائے گی۔( التشبہ في الاسلام،ص:83)
اور دوسری صورت شریعت کی اصطلاح میں ”تشبہ بالغیر“کہلاتی ہے جو اسلام میں ناپسندیدہ اور ممنوع ہے،ارشاد ربانی ہے:﴿وَلَا تَرْکَنُوا إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ﴾ (ہود :113)
(اور تم لوگ ظالموں کی طرف(قلبی طور پر) مت جھکو کہ تمھیں بھی جہنم کی آگ چھو جائے)۔
اسی قلبی میلان اور فکری مرعوبیت کے ساتھ جو نقالی پائی جاتی ہے اسی سے منع کرتے ہوئے حدیث میں فرمایا گیا ہے:”من تشبہ بقوم فہو منہم“۔(ابو داؤد)۔
یہ بھی واقعہ ہے کہ تشبہ کے تمام اصول و احکام کا مکمل اور تفصیل کے ساتھ احاطہ ممکن نہیں ،اس لیے کہ تمام صورتوں میں ہر ایک کا حکم جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اسے شرعی نصوص اور ان سے مستنبط ہونے والے اصولوں کی کسوٹی پر پرکھا جائے اور اہلِ علم اور فقہاء کے بتلائے ہوئے شرعی قوانین پر پیش کیاجائے۔تاہم بعض عمومی احکامات اس قسم کے موجود ہیں جن کے ضمن میں تقریباً تشبہ بالغیر کی صورتیں بالعموم داخل ہوجاتی ہیں۔چوں کہ اس مسئلہ میں اشتباہ و التباس بہت عام ہے ؛اس لیے فقہی انداز میں اس کی مزید وضاحت ذیل میں پیش کی جاتی ہے۔
علامہ انور شاہ کشمیری کی اصولی بات
”شعار(مشابہت)کی بحث صرف ان امورمیں چلے گی جن کے بارے میں صاحب ِشرع سے کوئی ممانعت کا حکم موجود نہ ہو ، ورنہ ہر ممنوعِ شرعی سے احتراز کرنا ضروری ہو گا ،خواہ وہ کسی قوم کا شعار ہو یا نہ ہو۔ اس کے بعد جن چیزوں کی ممانعت موجود نہ ہو اگر وہ دوسروں کا شعار ہوں تو ان سے بھی مسلمانوں کو اجتناب کرنا ضروری ہو گا، اگر وہ نہ رُکیں اور ان کا تعامل بھی دوسروں کی طرح عام ہو جائے، یہاں تک کہ اس زمانے کے مسلمان صلحاء بھی ان کو اختیار کر لیں تو پھر ممانعت کی سختی باقی نہ رہے گی ، جس طرح کوٹ کا استعمال ابتدا میں صرف انگریزوں کے لباس کی نقل تھی، پھر وہ مسلمانوں میں رائج ہوا، یہاں تک کہ پنجاب میں صلحاء اور علماء تک نے اختیار کر لیا تو جو قباحت شروع میں اختیار کرنے والوں کے لیے تھی وہ آخر میں باقی نہ رہی اور حکم بدل گیا، لیکن جو امور کفار و مشرکین میں بطورِ مذہبی شعار کے رائج ہیں یا جن کی ممانعت کی صاحبِ شرع صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کر دی ہے اُن میں جواز یا نرمی کا حکم کبھی بھی نہیں دیا جا سکتا۔ (انوار الباری:5/101، فیض الباری:2/15)
تشبہ کے مراتب اور احکام
الف:غیروں کی یہ نقّالی اور تشبّہ اسلام کے جس حیثیت کے رکن کے مقابلہ میں ہوگا اس کا وہی حکم ہوگا،اگر اس کا تعلق غیروں کے فکروعقیدہ سے ہے تو یہ تشبہ کفر ہوگا، جیسے ہندؤوں کے عقیدہٴ حلول وتناسخ، عیسائیوں کے عقیدہٴ تثلیث، روافض کے عقیدہٴ تحریفِ قرآن ، وغیرہ کا اختیار کرنا یا کسی قوم اور فرقے کے کفریہ و شرکیہ شعائروعلامات کو صحیح سمجھنا، اس کی تعریف یا تعظیم کرنا یا اسلام کے عقیدہٴ توحید ، عقیدہٴ نبوت ، ختمِ نبوت ، قرآن ، معجزات ، تقدیر ، موت، بعث بعد الموت، قیامت ، جنت ، دوزخ ، اور فرشتوں وغیرہ میں سے کسی کا انکار کرنا یا مزاق اڑانا۔
ب:اگر یہ تشبّہ غیروں کے عقائد سے تو تعلق نہ رکھتا ہو، مگر اُن کی مذہبی خصوصیات میں سے ہو، تو یہ کفریہ عمل ہے ، جو حرام تو بالاتفاق ہے اور علماء کی ایک جماعت کے نزدیک ظاہر میں کفر ہی کا حکم بھی لگایا جائے گا، جیسے صلیب لٹکانا، قشقہ لگانا، جنیو باندھنا، زنّار لٹکانا، کڑاپہننا، کلائی پر سرخ دھاگہ باندھنا، جئے پکارنا، مندروں اور اُن کے مذہبی تہواروں اور پروگراموں میں جانا، وغیرہ۔
ج: اور اگر اُن چیزوں کا تعلق نہ اغیار کے مذہبی عقائد سے ہو اور نہ مذہبی علامتوں سے، بلکہ اُن کے قومی شعائر (معاشرت و معاملات اور اطواروعادات )سے ہوتو بعض چیزیں اُن میں ایسی ہیں کہ وہ بہرحال بُری اور شریعت میں ممنوع ہیں، جیسے برتھ ڈے منانا (جو یہودیوں ، نصرانیوں کا شعار ہے )،تیجہ، چالیسواں، برسی وغیرہ منانا (جو ایرانی روافض کا شعار ہے)، یا شادی بیاہ میں بارات، منڈھا ، اُپٹن وغیرہ رسمیں اختیارکرنا (جو ہندوانہ طریقے ہیں)۔
اسی طرح ڈاڑھی منڈانا ، ٹخنے ڈھانکنا، گھٹنے کھولنا، عورتوں کا بے پردہ رہنا، ترچھی مانگ نکالنا، غیر اسلامی بال رکھنا، کھڑے ہوکر پیشاب کرنا، مردوں کے لیے عورتوں کے اور عورتوں کے لیے مردوں کے لباس پہننا ، یہ سب چیزیں بھی چوں کہ خلافِ سنت اور مخالفِ فطرت ہیں ، اس لیے ہمیشہ گناہ رہیں گی ۔
حدیث صحیح میں ہے: (بخاری و مسلم:(خالفوا المشرکین… و فی روایة:خالفوا المجوس… وفروا اللحی، واحفوا الشوارب“
(مشرکوں کی مخالفت کرو اور ایک روایت میں ہے: مجوسیوں کی مخالفت کرو:ڈاڑھی بڑھا کر اور مونچھیں کترواکر)۔
د:اور بعض چیزیں ایسی ہیں کہ وہ خود تو مباح ہوتی ہیں ،مگر کسی علاقہ یا کسی زمانہ میں غیر قوموں کی خصوصیت اور ان کا امتیازی نشان بن گئیں،تو جب تک یہ خصوصیت باقی رہے گی اس وقت تک وہ”تشبُّہ“کی تعریف میں داخل ہو کر ممنوع اور فقہی اصطلاح میں مکروہ تحریمی ہوں گی ، جیسے غیر قوموں کے کھانے پینے ، اٹھنے بیٹھنے اور رہنے سہنے کے طور طریقے اور ان کے وہ لباس جن میں نہ ٹخنے ڈھکتے ہوں ،نہ گھٹنے کھلتے ہوں اور نہ بے پردگی ہوتی ہو (کیوں کہ ٹخنے ڈھانکنا،ستر کھولنااور بے پردگی کرنا تو ہمیشہ ہی منع ہے)۔
ترمذی کی حدیث ہے: (02:99)لا تشبّہوا بالیھود و لا بالنصاری، فان تسلیم الیہود:الاشارة بالأصابع، و تسلیم النصاری:الاشارة بالأکف․“
(یہود اور نصاری کی مشابہت مت اختیار کرو،یہود انگلیوں کے اشارے سے سلام کرتے ہیں اور عیسائی ہتھیلیوں کے اشارے سے)۔
ایک حدیث میں ہے (ابو داؤد 1:17)ذکر لہ الشبور،فلم یعجبہ ذلک، و قال: ھو من امر الیہود ، فذکر لہ الناقوس، فقال:ھو من امر النصاری…․“
(لوگوں کو نماز کے لیے جمع کرنے کے سلسلے میں شبور(نقارہ)کا تذکرہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آیا اور آپ نے فرمایا کہ وہ یہودیوں کی چیز ہے ، پھر ناقوس(سائرن)کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ عیسائیوں کی چیز ہے ،پھر ”اذان“ مشروع کی گئی)
ایک حدیث میں فرمایا گیا (ترمذی2:107)نظّفوا أفنیتکم، ولا تشبّھوا بالیھود
(اپنے دروازے صاف ستھرے رکھا کرو، یہودیوں کی طرح (گندے)مت رہا کرو۔
ایک حدیث میں یہ ہے(ابو داؤد2:698)قلت:خذھا و أنا الغلام الفارسی، فالتفت الیَّ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، فقال: ھلّا قلتَ:أنا الغلام الأنصاری․“
(فارسی الأصل صحابی (حضرت ابو عُقبة رُشید فارسی ،ثم انصاری فرماتے ہیں کہ ایک جنگ کے موقع پر میں نے تیر چلاتے ہوئے نعرہ بلند کیا کہ لے سنبھال ،میں فارسی تیر انداز ہوں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ٹوکتے ہوئے فرمایا:کہ تم نے (اسلامی نسبت اختیار کرتے ہوئے) یہ کیوں نہیں کہا کہ میں انصاری تیر انداز ہوں؟)
ھ:جو چیز ذاتی طور پر مباح ہوں مگر غیروں سے آئی ہوں ، اور مسلمانوں کے پاس اس کا متبادل موجود ہو، تو غیرت کا تقاضا یہی ہے کہ پھر (حتی الامکان)دوسروں کی چیزوں کی طرف نظر نہ اٹھائی جائے اور اپنی ہی چیزیں استعمال کی جائیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک موقع پر یہ کہہ کر چھری واپس کر دی تھی“أما الظفر فمدی الحبشة“(بخاری2:338,و مسلم2:157)
کہ جانوروں کے ناخن سے بنی ہوئی چھری حبشیوں کی چیز ہے ۔
ایک صحابی کے ہاتھ میں عربی کمان کے بجائے ایرانیوں کی بنائی ہوء کمان دیکھ کر فرمایا تھا”ما ھذہ ؟القھا ، و علیک بھذہ و اشباھھا “ (ابن ماجہ :2810)
یہ کیا ہے؟ اسے پھینک دو ، عربی کمان رکھو ، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمہیں فتح و شوکت دی ہے ۔
و: اور جو مباح چیزیں بشری ضروریات سے تعلق رکھتی ہوں، غیروں کا شعار نہ ہوں اور مسلمانوں کے پاس ان کا متبادل بھی موجود نہ ہو جیسے آج یورپ کی نئی نئی ایجادات، جدید اسلحہ، تہذیب و تمدن کے نئے نئے سامان، تو اس کی پھر دوصورتیں ہیں یا تو ان کا استعمال تشبہ کی نیت سے کیا جائے گا یا تشبہ کی نیت سے نہیں کیا جائے گا، پہلی صورت میں استعمال جائز نہیں ہوگا؛کیوں کہ تشبہ بالکفار کومقصود بنا لینا، ان کی طرف میلان و رغبت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا اور کفار کی طرف میلان یقینا اسلام کی چیز نہیں ہے؛ بلکہ اسلام سے نکال دینے والی چیز ہے۔غیر مسلموں کی تقلید کسی مسلم کو بامِ عروج پر نہیں پہنچا سکتی، جیسا کہ ظلمت کی تقلید نور کی چمک میں، مرض کی تقلید صحت میں اور کسی ضد کی تقلید دوسری ضد میں کوئی اضافہ و قوت پیدا نہیں کرسکتی، تاہم اگر ان چیزوں میں تشبہ کی نیت نہ ہو، بلکہ اتفاقی طور پر یا ضرورت کے طور پراستعمال میں آرہی ہوں، تو ضرورت کی حد تک ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہٴ احزاب کے موقع پر، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے ،اہل فارس کے طرز پر خندق کھدوائی تھی،غزوہ طائف کے موقع پر منجنیق(توپ)کا استعمال کیا تھا۔
ماخوذ از:التشبہ فی الاسلام، مولف:قاری محمد طیب صاحب اسلام شاہ راہ اعتدال ،مولف:محمد معاویہ سعدی،اِیقان:جلد: شمارہ : دسمبر ۔مضمون:غیر مسلم اقوام کی مشابہت:اصولی ابحاث اور فقہاء کے استنباطات کا عصری انطباق)
قاری محمد طیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند نے اپنی معرکة الآراء کتاب ”التشبہ فی الاسلام“
میں تشبہ کے تاریخی انقلابات اور اس کی طبعی رفتار پر تفصیلیگفت گو کرتے ہوئے اخیر میں لکھا ہے:
”تشبہ بالغیر فی الحقیقت تخریبِ حدود اور ابطالِ ذاتیات کا نام ہے، یعنی فطری حدود سے تجاوز کرنے یا حقیقی حدود کو توڑ دینے کا دوسرا نام تشبہ بالغیر ہے،جب غیر کی مشابہت پڑے گی تو بلا شبہ اصلی شکل میں فرق آجائے گا، یہاں تک کہ بالآخر اس تخریبِ حدود کے ذریعہ اصلی اور فطری شکل محو ہو جائے گی اور ایک غیر فطری شکل نمایاں ہو جائے گی؛ کیوں کہ یہ تخریب، خواہ کسی تکوینی محدود میں واقع ہو یا تشریعی محدود میں،جب کسی چیز کی حدود ہی باطل ہو جائیں تو محدود کیسے باقی رہ سکتا ہے؟“ (ص:06)
”اسلام شاہ راہِ اعتدال“نامی کتاب میں ہے:
تشبہ کی حقیقت اور روح ہے:اللہ کے اور فطرتِ اسلام کے باغیوں کی طرف قلب کا جھکاؤ اور ان کی ایسی چیزوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنا جنہیں اسلام نے منع کر رکھا ہے یا اسلام میں ان کا متبادل موجود ہے اور اگر اسی کے ساتھ ساتھ اسلامی چیزوں کی تحقیر بھی پائی جائے تو تشبہ کا انتہائی درجہ، یعنی کفر ہوگا۔(ص:228،مصنف:مولانا محمد معاویہ سعدی صاحب، مکتبہ دارالسعادہ، سہارنپور )
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یہ بات لکھی جا سکتی ہے کہ تشبہ کسی شخص کا کسی دوسرے مذہب یا قوم کے کسی فرد کی یا جماعت کی اخلاقیات ،رہن سہن،طرزِ معاشرت،تہذیب و تمدن، لباس،اکل و شرب، وضع قطع یا فکر و تدبر وغیرہ میں ایسی نقل یا مشابہت کرنے کا نام ہے کہ اس پہلے فرد پر دوسرے فرد کا گمان ہونے لگے اور ایک انجان شخص بھی اسے دوسری جماعت کا فرد ہی تصور کرے۔
ماخوذ از:مجلہ:(التفسیر کراچی:2020۔ جلد:35، شمارہ:1 مضمون: تشبہ بالکفار اور قرآنی تعلیمات:ایک تحقیقی جائزہ، مضمون نگار:اللہ دتہ)
مذہبی امور میں تشبہ
مذہبی امور سے مراد وہ امور و اعمال ہیں، جن کا تعلق مذہب سے ہو، یعنی:ان افعال و اعمال کو عبادت کے طور پر کیا جاتا ہو ، جیسے: نصاریٰ کی طرح سینے پرصلیب لٹکانا، ہندؤوں کی طرح زُنَّار(وہ دھاگا یا ڈوری جو ہندو گلے سے بغل کے نیچے تک ڈالتے ہیں)باندھنا یا پیشانی پر قشقہ (ٹیکا،تِلَک) لگانا یا سکھوں کی طرح ہاتھ میں لوہے کا کڑا پہننا وغیرہ ، تو اس قسم کے مذہبی امور میں غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنا بالکلیہ ناجائز اورحرام ہے۔اسی طرح قومی یا مذہبی تہوار میں غیر قوموں کی موافقت، اگرچہ عبادات میں بھی داخل ہے؛لیکن بعض اوقات ان کا شمار عادات میں ہوتا ہے ۔تاہم شریعت نے مختلف دلائل اور قطعی احکام کے ذریعے انہیں خاص کر دیا ہے۔ان کی اہمیت کے پیش نظر خصوصی طور پر ان کے منانے میں کفار کی مشابہت سے روکا گیا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے لیے سال میں صرف دو تہوار یعنی دو عیدیں ہیں ۔ان کے علاوہ دیگر اقوام کے تہوار یا جشن، مشابہت کی ایسی واضح مثالیں ہیں جن کے متعلق شرعی نصوص موجود ہیں۔جیسا کہ تشبہ کے مراتب و احکام کے ذیل میں شق (ب) کے تحت تفصیل گذر چکی ہے۔
ہمارے ملک میں دین سے ناواقف مسلمان برادرانِ وطن کے ساتھ جو ہولی کھیلتے ہیں، دیوالی میں پٹاخے پھوڑتے ہیں، کرسمس میں شریک ہو جاتے ہیں،اسی طرح بہت سے مسلمان لفظ نمستے اور نمشکار بولتے ہیں، جو ہنود کے یہاں سلام کا ایک طریقہ ہے، مگر اس کا مفہوم شرکیہ ہے، علاوہ ازیں وندے ماترم اور جن گن من جو کفریہ اور شرکیہ مضامین پر مشتمل گیت ہیں (جو انگریز حکومت کے اعزاز میں لکھے گئے تھے) اور یوگا خالص ہندوانہ شعار اور غیروں کا طریقہ پرستش ہے، جسے بہت سے مسلمان اپناتے ہیں، یہ سب مذہبی اعتبار سے تشبہ میں داخل ہیں،ان سے مسلمان بھائیوں کو احتراز کرنا چاہیے؛کیوں کہ یہ سب کفریہ عمل ہے، جو حرام تو بالاتفاق ہے اور علماء کی ایک جماعت کے نزدیک ظاہر میں کفر ہی کا حکم لگایا جائے گا۔لیکن فعل وعمل میں کسی بھی جزوی فعل کی مماثلت پر کفر اوردین سے خروج کا فتوی لگانے میں احتیاط کو پیشِ نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔
شعائرِ کفر میں تشبہ
شعائرِ دین وہ امور ہیں جو کسی مذہب یا قوم کی شناخت اور امتیازی نشان ہوں کہ انھیں دیکھ کر اس مذہب یا قوم کی تعیین اور شناخت کی جاتی ہے،ایسے امور و علامت ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں؛چوں کہ شعار کی خصوصی اہمیت ہے، اس لیے ان کو اختیار کرنا تشبہ کی سنگین ترین صورت ہے اور بعض دفعہ کفر کا سبب بھی ہے،آج کل بہت سے تعلیمی اداروں میں وندے ماترم پڑھوایا جاتا ہے،بائبل یا گیتا سے دعائیہ کلمات پڑھوائے جاتے ہیں، سرسوتی دیوی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر سلام کیا جاتا ہے،پیشانی پر مسلمان لیڈر بھی قشقہ لگواتے ہیں،ہندو دیوی اور دیوتاؤں کے نعرے لگوائے جاتے ہیں،مشنری اسکولوں میں ان کے عقائد کے مطابق حضرت مسیح کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوا جاتا ہے یا کسی قدر سر جھکایا جاتا ہے…،یہ سب امور شعائر کفر میں داخل ہیں؛اس لیے ان سے بالکلیہ پرہیز کرنا چاہیے،اس سلسلے میں مذہبی رواداری اور قومی یکجہتی کے نام پر نرم گوشہ اختیار کرنا(جیسا کہ وندے ماترم یا قومی ترانہ جن گن من کے بارے میں بعض علماء عدمِ حرمت کی رائے رکھتے ہیں) مختلف مفاسد کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔
تہذیبی و قومی امور میں تشبہ
اجتماعی زندگی کے لیے تہذیب ایک فطری چیز ہے،اس سے انسان کا تشخص قائم رہتا ہے،اسی لیے دنیا میں مختلف قوموں کی مختلف تہذیبیں ہیں،اسلامی تہذیب اسی دراز سلسلے کی ایک کڑی ہے،اسلامی تہذیب اپنے جلو میں وہ ساری خوبیاں اور خصوصیات سموئے ہوئے ہے جو ایک کامل و مکمل تہذیب کے لیے ضروری ہے۔
ہمارا ایمان یہ ہے کہ سرکار دوعالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد سے اسلام کا تصور آپ ہی کی ذات سے وابستہ ہو چکا ہے اور پورے عالم کے خیر کا کل سامان آپ ہی کے اُسوہ میں منحصر ہو چکا ہے؛اس اعتبار سے جو مبارک عادات و اخلاق اہل ِ دنیا کو اسلام کے واسطے سے اور سرکار دوعالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ملے ہیں انہی کو اسلامی تہذیب اور اسلامی ثقافت کہیں گے،چناں چہ اخلاق و اعمال اور تہذیب و ثقافت کے حسن و قبح کو پرکھنے کے لیے اسلام کی کسوٹی کو استعمال کیا جانا ضروری ہوگا اور اس کے معیار پر پوری اترنے والی تہذیب اور اخلاق و عادات پر اسلامی تہذیب کی مہر لگائی جائے گی۔
تشبہ کے مراتب و احکام کے ذیل میں جو تفصیلات درج کی گئی ہیں ان کی روشنی میں تہذیب کا مسئلہ بھی حل کیا جائے گا؛چناں چہ اگر کسی قوم کی تہذیب کا تعلق مذہبی عقائد اور مذہبی علامتوں اور ممنوعاتِ اسلام سے ہو تو وہ قابلِ احتراز ہوگا اور اگر ایسا نہ ہو، بلکہ اس کا تعلق معاشرت و معاملات اور اطوار و عادات سے ہو تو علی الاطلاق کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا، بلکہ اس کی حقیقت و ہیئت دیکھ کر کوئی فیصلہ کیا جائے گا،اس اعتبار سے بعضے چیزیں مباح بھی ہو سکتی ہیں،مثلاً اغیار کی تہذیب یا ان کا وضع کردہ طرز زندگی، اسلامی معاشرے میں اس قدر رائج ہوجائے کہ مشابہت کا پہلو بالکل ذہنوں سے نکل جائے تو اب وہ طریقہ غیرشرعی ہونے سے نکل کر، جواز کی حدود میں داخل ہوجائے گا۔ جیسے کرسی ٹیبل پر کھانا، کالر والا لباس پہننا ،ٹراوزر پہننا اور بعضے ممنوع ہو سکتی ہیں بشرطیکہ اسے اپنانے کی وجہ سے اسلام کی ہدایت اور اس کی شناخت پامال ہوتی ہو۔
”فإن الإسلام لم یقرر للإنسان نوعًا خاصًا، او ہیئةً خاصة من اللباس ولا اسلوبًا خاصًا للمعیشة، وإنما وضع مجموعة من المبادی والقواعد الاساسیة یجب علی المسلم ان یحتفظ بہا“․ (تکملة فتح الملہم شرح صحیح مسلم 4/84 مکتبة دار العلوم کراچی)
تاہم اس موقع پر مندرجہ ذیل اقتباس، جو بڑی اہمیت کا حامل ہے، پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے:
”سد ذرائع اور احتیاط :ہاں یہ بھی یاد رکہنا چاہیے کہ یہ تمام تفاوت اور فرقِ مراتب علم و اعتقاد کے اعتبار سے ہے۔ ورنہ عملاً ہر درجہ تشبُّہ کو ممنوع العمل قرار دے لینا ہی ایک مسلمان کے لیے احتیاط اور حقیقی پرہیزگاری کا باعث ہو سکتا ہے ۔کیوں کہ ہر تمدّن و معاشرہ کا ایک طویل سلسلہ ہے ۔ اور اس سلسلہ کی ایک کڑی دوسری کو کھینچ لیتی ہے ۔ پس کسی تمدّن کی کسی چیز کو اختیار کر لینا گویا دوسری چیز کے لیے راستہ صاف کر دینا ہے تو اس طرح انجام کار پورے ہی تمدّن کا حلقہ اپنے گردن میں ڈال لینا ہے۔ اس لیے بطورِ سدِّ ذرائع تشبّہ کے ان تمام مراتب سے، خواہ وہ حرام ہو یا مکروہ تحریمی یا تنزیہی ،عمل کے دائرہ میں یکساں ہی ممانعت کی جائے گی۔“(التشبہ فی الاسلام، ص:88)