اسلام میں اولاد کی تربیت کی اہمیت وافادیت

اسلام میں اولاد کی تربیت کی اہمیت وافادیت

مولانا اسرار الحق قاسمی

وقت کے ساتھ ماحول میں تیزی کے ساتھ تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ لیکن یہ تبدیلی تمام انسانوں، خصوصاً ان معاشروں اور خاندانوں کے لیے انتہائی مضر ہے، جن میں انسانی و اخلاقی قدروں کا بھر پور لحاظ کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ آج کل رونما ہونے والی زیادہ تر تبدیلیاں سب سے پہلے انسانی و اخلاقی اقدار پر ضرب لگا رہی ہیں۔ ماحول میں بڑھتی عریانیت، اخلاقی گراوٹ اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں حقوق کی پامالی کے واقعات آئے دن بڑھتے جارہے ہیں۔ ماحول کو تبدیل کرنے میں میڈیا سب سے زیادہ بھیا نک کردار ادا کر رہا ہے۔ موٹی رقم کمانے کی آڑ میں پرنٹ میڈیا اپنے صفحات پر عریاں لٹریچر شائع کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ زیادہ تر بڑے اخبارات آج کل فحاشیت پر مبنی تصاویر اور مواد شائع کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لے رہے ہیں۔ اخبارات کے صفحات پر نیم برہنہ تصاویریں شائع کرنے کا رواج تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ اخبارات کے اس عمل سے مالکان کو تو خوب فائدہ ہو رہا ہے، لیکن ماحول تیزی کے ساتھ خراب ہوتا جا رہا ہے۔وہ خاندان جو مہذب ہیں اور اس عریانیت و فحاشیت کو قطعاًپسند نہیں کرتے ، وہ اخبارات کی اس تبدیلی پر سخت خفا ہیں اور پس و پیش میں مبتلا ہیں کہ آخر وہ اپنے گھر میں کونسا اخبار لائیں، اپنے بچوں کو کونسا اخبار پڑھنے کی اجازت دیں؟! اخبار کے بدلتی صورت حال کے پیش نظر ایک صاحب نے اپنی ناراضگی کا اظہار اس طرح کیا کہ ہم اپنے بچوں کے لیے کونسا اخبار گھر پر جاری کرائیں۔ کیوں کہ جس اخبار کو بھی دیکھیے وہ عریاں تصاویر اور سطحی مواد سے بھرا پڑا ہے۔

پرنٹ میڈیا سے زیادہ خطرناک صورت حال الیکٹرانک میڈیا کی ہے۔ چاہے وہ ریڈیو اسٹیشن ہوں،یا ٹی وی چینل یا انٹرنیٹ ۔ آج کل ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور جا بجا ایف ایم ریڈیواسٹیشن قائم کرنے کے لیے خطیر رقم خرچ کی جارہی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ان ایف ایم ریڈیو پر کیا چیزنشر کی جاتی ہے؟ محض سطحی باتیں اور نوجوانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے والے گانے۔ ٹی وی چینل ریڈیو سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ زیادہ تر چینل ایسے پروگرام نشر کرتے ہیں جن سے ماحول خراب ہوتا ہے۔بعض چینل تو شب و روز فلمیں دکھاتے ہیں اور بعض چینل ان سے بھی زیادہ فحش پروگرام نشر کرتے ہیں۔انٹر نیٹ کی افادیت سے اگر چہ انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس کا بھی عام طور سے غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے ماحول میں لوگ عریانیت، فحاشیت اور طرح طرح کی برائیوں سے کیسے محفوظ رہیں اور کیسے اپنے بچوں کو ضیاع وقت سے محفوظ رکھیں اور ان کو غلط کاموں سے بچائیں؟!

اسلام نے بچوں کی پرورش اور تربیت پر خاص توجہ دی ہے اوروالدین کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگہ داشت کریں، ان کو اخلاق سکھا ئیں، تعلیم دیں اور ان کی تربیت کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ: اے ایمان والو!اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ (التحریم)اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچانے کا مطلب یہی ہے کہ لوگ خود بھی ایسے گنا ہوں سے بچیں جو ان کو جہنم تک لے جانے والے ہوں اور اپنے گھر والوں کو بھی ایسے کاموں سے بچائیں۔ اس آیت کے نزول کے بعد حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ اے ا اللہ کے رسول (صلی الله علیہ وسلم )اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کی فکر تو سمجھ میں آ گئی کہ ہم گناہوں سے بچیں اوراحکام الہٰی کی پابندی کریں، مگر اہل و عیال کو ہم کس طرح جہنم سے بچائیں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ہے، ان کاموں سے ان سب کو منع کرو اور جن کاموں کے کرنے کا تمہیں حکم دیا ہے تم بھی عمل کرو اور اپنے اہل و عیال کو بھی ان کاموں کے کرنے کا پابند بناؤ، تب تمہارا یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچا سکے گا۔

معلوم ہوا کہ بچوں کی تربیت و نگہ داشت پر پوری توجہ دی جانی چاہیے۔ تعلیم و تربیت کے دائرہ کو محدود نہ رکھا جائے،اگر بچوں کو عصری تعلیم دی جائے تو اسے دین کی بنیادی تعلیم بھی فراہم کی جائے، بلکہ دینی تعلیم کو مقدم رکھا جائے، اسی طرح اگر بچوں کو تعلیم کے لیے اسکولوں، کالجوں یا دینی اداروں میں بھیجاجائے تو ان کو عملی تربیت بھی دی جائے ۔ مثلاً کھانے کے آداب، بات کرنے کے آداب، بڑوں اور چھوٹوں کے ساتھ پیش آنے کے آداب بھی بتائے جانے چاہییں۔ ایسے ہی عقائد پر مضبوطی سے قائم رہنے اور صالح زندگی گزارنے کی ترغیب بھی دی جانی چاہیے۔ ماحول جس برق رفتاری کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے اور معاشرہ میں عریانیت داخل ہو رہی ہے، اس سے کیسے محفوظ رہا جائے۔ اس طرح کی بنیادی چیزوں پر نگرانی بے حد ضروری ہے۔

انبیاء علیہم السلام اپنے اولاد کی اصلاح پر پوری توجہ دیتے تھے اور ان کے لیے دعا ئیں فرماتے تھے۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہما السلام کی وصیت موجود ہے جس میں ان دونوں برگزیدہ نبیوں نے اپنے فرزندوں کو یہ نصیحت اور وصیت کی:اے میرے بیٹو!اللہ تعالیٰ نے تمہیں دین اسلام کے لیے چن لیا اور حالت اسلام ہی میں تمہاری موت ہونی چاہیے ۔(البقرہ:132) حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ وہ اپنے اہل و عیال کو نماز پڑھنے اور زکوة ادا کرنے کا حکم دیتے تھے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے بچوں کی اصلاح اور ان کی نگرانی کے بارے میں متعدد مواقع پر ہدایات فرمائیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اولاد کے لیے والدین کا سب سے بہترین تحفہ اور عطیہ ان کی صحیح تعلیم وتربیت کا انتظام کرنا ہے“۔ (ترمذی۔ باب ماجاء فی ادب الولد ) ایک موقع پر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :”جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اس کو نماز کی عادت ڈلواؤ اور جب دس برس کی عمر کو پہنچ جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اس کو تنبیہ کرو“ ۔(ترندی:1/39) رسول خدا صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ آدمی اپنے اہل و عیال کا ذمہ دار اور نگراں ہے اور قیامت کے دن اہل و عیال سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں جواب دہ ہوگا۔ (بخاری، باب العبد راع فی مال سیدہ)

بچوں کی تعلیم و تربیت پر دین اسلام نے کس قدر توجہ دی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں کی تھیں ان کو قرآن میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:”اے میرے بیٹے !اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو پھر وہ کسی پتھر یا زمین وآسمان کی کسی بھی جگہ میں پوشیدہ ہوتو اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر کر دیتا ہے۔ (ب) اے میرے بیٹے! نماز کا اہتمام کر وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو۔ (ج) اے میرے بیٹے !فخر اور غرور کی وجہ سے لوگوں سے انجان مت بنو اور نہ زمین پر اکڑ کر چلو ۔(د ) زمین پر جب چلو تو در میانی رفتار سے چلو اور جب بات کرو تو اپنی آواز کو پست رکھو۔ (سورہ لقمان:آیت:16 تا19 )

موجودہ زمانہ میں بچوں کی نگہ داشت اور زیادہ ضروری ہے۔ اس لیے کہ اس زمانہ میں بچوں کو بگاڑنے والے بہت سے سامان چپہ چپہ پر موجود ہیں۔ جیسا کہ بہت سے گھروں میں ٹیلی ویژن موجود ہیں، جب بچہ قدرے ہوشیار ہوتا ہے اور اپنے والدین یا بڑوں کو ٹی وی دیکھتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ بھی ٹی وی دیکھنے لگتا ہے۔ طرح طرح کی فحاشیت پر مبنی مناظر ٹی وی میں دکھائے جاتے ہیں، اس لیے کچھ وقت کے بعد اسے بھی ٹی وی دیکھنے میں دل چسپی ہونے لگتی ہے اور اسکرین پر نمودار ہونے والے کرداروں کے مانند اپنے آپ کو بنانے کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہونے لگتی ہے۔ بعض مرتبہ ٹی وی پر منفی کرداروں سے متاثر ہو کر بعض بچے انہیں کے مانند جرائم کرنے لگتے ہیں۔ ابھی کچھ دنوں کی بات ہے کہ ایک بچہ اغوا ہو گیا تھا، جن لوگوں نے اغوا کیا تھا وہ بالکل نوجوان تھے، یعنی ان کی عمر20 سال کے آس پاس تھی۔اغو ا کے بعد انہوں نے اس کے والدین سے موٹی رقم کا مطالبہ کیا، میڈیا اور پولس نے اس واقعہ پر گہری نظر رکھی، بہرحال کسی طرح بچے کو چھڑا لیا گیا اور ان نو جوانوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس نے جب ان سے معلوم کیا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا اور اتنا خطر ناک کھیل کیسے کھیلا؟ تو انہوں نے بتایا کہ دراصل ہم نے ایک فلم میں اغوا ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ اسی کی طرح ہم نے بھی ویسا ہی کرنے کی کوشش کی۔ فلموں، فحش پروگراموں کے ذریعہ کتنے نو جوان اور بچے بگڑ رہے ہیں، اس کی تعداد تو نہیں بتائی جاسکتی، لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان ذرائع سے بگڑنے والے بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بعض مرتبہ دیکھا جاتا ہے کہکچھ والدین اپنے بچوں کی گھر کے اندر پوری نگہ داشت رکھتے ہیں۔ اپنے بچوں کی اصلاح کے لیے وہ گھر میں نہ ٹی وی آنے دیتے ہیں اور نہ ریڈیو اور نہ اس طرح کی کوئی دوسری چیز، لیکن گھر کے باہر اپنے بچوں کی دیکھ بھال نہیں کر پاتے ، جس کے سبب بچے باہر کے ماحول سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کی گھر کے اندر بھی اور گھر کے باہر بھی احتیاط سے نگرانی کی جائے اوران کی نفسیات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کی اصلاح وتربیت کے لیے مثبت تدابیر اختیار کی جائیں۔