حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدللّٰہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونوٴمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ اللّٰہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ وحدہ لا شریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولنا محمدا عبدہ ورسولہ ارسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیا إلی اللّٰہ بإذنہ وسراجا منیرا۔
اما بعد! فأعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم إن الذین قالوا ربنا اللّٰہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملائکة ألا تخافوا ولا تحزنوا وأبشروا بالجنة التی کنتم توعدون․ وقال اللہ سبحانہ وتعالی: ولا تھنوا ولا تحزنوا وأنتم الأعلون إن کنتم موٴمنین․ صدق اللہ مولنا العظیم․
میرے محترم بزرگو، بھائیو اور دوستو! یہ کائنات اللہ نے بنائی ہے اور اس میں جو کچھ بھی ہے وہ سب کا سب اللہ نے بنایا ہے، اللہ تعالی خالق ہیں اور اللہ کے سوا جو کچھ ہے جو ہمیں نظر آرہا ہے یا ہمیں نظر نہیں آرہا ہے وہ سب مخلوق ہے، جو چیزیں نظر آرہی ہیں اس کے خالق بھی اللہ ہیں اور جو نظر نہیں آرہی ہیں ان کے خالق بھی اللہ ہیں، یہ سارا نظام اللہ تعالی کا بنایا ہوا ہے، اب یہ باتیں جو میں آپ سے عرض کررہا ہوں کہ اللہ خالق ہیں، اللہ مالک ہیں، اللہ نے یہ کائنات بنائی ہے اور اس کائنات کی جو تفصیلات ہیں اس کے اکثر حصے سے ہم ناواقف ہیں، جو نظر نہیں آرہی ، سب کے خالق اللہ ہیں، یہ باتیں انبیائے کرام علیہم السلام نے بتائی ہیں، اگر انبیاء نہ ہوتے تو ہم کیسے ایمان لاتے؟ ہمیں کیا خبر ہوتی کہ اللہ ہیں، اللہ تعالی نے اپنا تعارف جو کروایا ہے وہ انبیاء کے ذریعے سے کروایا ہے، چناں چہ سب سے آخر میں سید الانبیاء، امام الرسل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ نے بھی آکر سب سے پہلے اللہ تعالی ہی کا تعارف کروایا، دنیا بھول چکی تھی، چناں چہ لوگ کفر میں مبتلا تھے، شرک میں مبتلا تھے اور کفر بھی ایسا خوف ناک تھا اور شرک بھی ایسا خوف ناک تھا کہ اس کی ماضی میں کوئی نظیر اور مثال نہیں تھی، اللہ تعالیٰ کی ایک سنت اور بھی ہے اور وہ یہ کہ جب اس دنیا کے اندر کفر بڑھتا ہے، شرک بڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی بڑھتی ہے، فسق وفجور بڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ نبی بھیج دیتے تھے، چناں چہ یہ جو ایک لاکھ کم وبیش چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السلام آئے، یہ اسی ضرورت کی بنیاد پر اللہ نے بھیجے۔
حضرت نوح علیہ السلام کی ساڑھے نو سو سال دعوت دیتے رہے، اللہ کی طرف بلاتے رہے، اللہ کی وحدانیت کی دعوت دیتے رہے۔ میں عرض کررہا ہوں کہ انبیائے کرام کو جو اللہ تعالیٰ بھیجتے ہیں، اس دور اور وقت کی جو ضرورت ہوتی ہے اور اس دور اور وقت کی جو صورت حال ہوتی ہے اس کے اعتبار سے بھیجتے ہیں۔
اب آپ سوچیے کہ امام الانبیاء ہیں، سید الرسل ہیں اور آخری نبی ہیں، اب اور کوئی نبی نہیں آئے گا تو سوچیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت لوگوں کے کفر کا کیا حال ہوگا؟ شرک کا کیا حال ہوگا؟ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر سب سے پہلے جو محنت فرمائی وہ وحدانیت، توحید کی محنت تھی، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، لا إلہ إلا للّٰہ، تمام صفات کے حامل اللہ ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت پر بہت تھوڑے لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اکثر لوگ کہتے تھے کہ یہ تو ہمارے لیے بہت عجیب بات ہے، ما وجدنا علیہ آباء نا ہم نے تو اپنے آباء واجداد سے یہ باتیں نہیں سنیں، وہ تو اس طریقے پر نہیں تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محنت کا سلسلہ جاری رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بالآخر مجبور ہو کر اللہ تعالی کے حکم سے مکہ چھوڑنا پڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس برس وہاں گزارے اور اس دس برس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی اشاعت کا بہت بے مثال اور بے نظیر فریضہ سر انجام دیا، اس کے نتیجے میں اسلام پوری دنیا میں پھیلنا شروع ہوا۔
جو بات میں عرض کرنا چاہ رہا ہوں وہ یہ کہ آج اسلام کا جو تعارف ہے، 1446 برس گزرنے کے بعد وہ یہ ہے کہ یہود کا غلبہ ہے، نصاری کا غلبہ ہے، باطل کا غلبہ ہے اور مسلمان بہت اذیت کی، بہت تکلیف کی اور بہت پریشانی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
لیکن یاد رکھیں کہ یہ بھی ایک سازش ہے، اسلام کو ایسا محدود کر کے پیش کیا جاتا ہے اور اسلام کی اشاعت اور اسلام کے دنیا میں پھیلنے کے جو واقعات ہیں اور حقائق ہیں، ان کو چھپایا جاتا ہے، ظاہر نہیں کیا جاتا، اس لیے کہ جو ابلاغیات ہے، جو خبر ہے، وہ دشمن کے پاس ہے، وہ جیسی اور جتنی خبر چاہتے ہیں، اس کو پھیلاتے ہیں، عام کرتے ہیں، آپ نے کبھی بھی کسی عالمی ابلاغیاتی ذریعے سے یہ نہیں سنا ہوگا کہ برطانیہ میں، اسلام کے پھیلنے کی رفتار اور اس کا ماہانہ، اس کا سالانہ تناسب کیا ہے؟ کبھی آپ کے سامنے نہیں آیا ہوگا، جرمنی میں کیا ہے؟ فرانس میں کیا ہے؟ ہالینڈ میں کیا ہے؟ ناروے میں کیا ہے؟ اور دوسرے مغربی ممالک میں کیا ہے؟ امریکہ میں کیا ہے؟ کینیڈا میں کیا ہے؟
روزانہ، ہر لمحے جو آپ کو خبر دی جائے گی اور دی جاتی ہے وہ خبر ہے جس سے آپ کا دل زخمی ہو، جس سے آپ کی تکلیف میں، آپ کے ضعف میں ، آپ کی مایوسی میں اضافہ ہو، یہ ایک بہت بڑی جنگ ہے اور اس جنگ کا نام اردو میں ابلاغیاتی جنگ اور انگریزی میں ”میڈیا وار“ ہے، بغیر بندوق کے، بغیر توپ کے، بغیر گولے کے اور بغیر میزائل کے اور بغیر جنگی جہاز کے، خبر کے ذریعے سے زخمی کیا جاتا ہے، خبر کے ذریعے ضعیف کیا جاتا ہے۔
آپ حیران ہوں گے، جو واقعہ ہے اس کی ایک جھلک میں آپ کو بتاتا ہوں کہ 1950ء میں، برطانیہ میں ایک کمرہ تھا اور وہ کمرہ مشرقی لندن (ایسٹ لندن) میں بنایا گیا تھا اور اس کمرے کا مقصد یہ تھا کہ وہ جائے نماز ہے، اگر کوئی آئے اور نماز پڑھنا چاہے تو نماز پڑھ سکتا ہے۔
1950ء وہ زمانہ ہے جب ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور وہ علاقے جو برطانیہ کے زیر تسلط رہے، وہاں سے لیبر کلاس کو بلایا گیا، مشینیں چلانے کے لیے، چناں چہ مزدور طبقہ ان ملکوں سے بہت بڑی تعداد میں گیا، اور ان کی نسلیں آج تک وہاں موجود ہیں، آج جو مسلمان وہاں موجود ہیں یہ وہی ہیں جو1950، 1960، 1970ء میں گئے۔
1950 میں برطانیہ میں ایک کمرہ بنایا گیا اور ان جانے والے مسلمانوں نے بنایا اور یہ مسلمان جو وہاں گئے یہ عام طور پر مزدور ٹائپ تھے، ان کو مذہب کے بارے میں، دین کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں تھیں، چناں چہ ان میں کوئی بہت زیادہ گھر کی تربیت کی وجہ سے یا اور کسی سبب سے دین کی طرف راغب ہوتا تو چوں کہ پورا دن فیکٹری سے اس کو چھٹی نہیں ملتی تھی، رات کو ملتی تھی اور کوشش ان لوگوں کی یہ ہوتی تھی کہ یہ اوور ٹائم زیادہ سے زیادہ لگائیں اور پیسہ زیادہ سے زیادہ کمائیں، تو وقت بہت کم ملتا تھا، تو اب جو بہت دین دار ہوتا تھا وہ پانچوں نمازیں اس کمرے میں ایک ہی وقت میں پڑھ لیتا تھا، اس لیے کہ ان کے لیے فجر کے لیے آنا، ظہر کے لیے آنا، عصر کے لیے آنا، مغرب کے لیے آنا بہت مشکل ہوتا تھا، ایک ہی وقت آکر پانچ نمازیں پڑھیں اور چلے گئے یا وہاں نہیں آئے تو اپنے گھر میں پڑھ لیں۔
اور آپ اندازہ لگائیں کہ جہل کا یہ عالم تھا کہ وہ جو کمرہ تھا اس کمرے میں جمعہ کی نماز اتوار کے دن ہوتی تھی، چوں کہ اتوار کی چھٹی ہوتی ہے، اس لیے انہوں نے خود اپنی طرف سے طے کیاکہ ہم جمعہ کی نماز اتوار کے دن پڑھیں گے۔
میں یہ سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ اسلام کی جو اشاعت ہے وہ کتنی تیز رفتار ہے، اس کو مسلمانوں سے چھپا کر رکھا ہے، آج 2025ء میں صرف لندن شہر میں سینکڑوں مساجد ہیں، میں حتمی طور پر نہیں بتا سکتا کہ 300 ہیں، 400 ہیں، لیکن سینکڑوں ہیں اور ان میں غالب ترین اکثریت لندن میں بھی اور پورے انگلستان میں وہ مساجد ہیں جنہیں مسلمانوں نے خریدا ہے، پہلے وہ گرجے تھے، عیسائیوں کے عبادت خانے تھے اور پورے یورپ کا اگر آپ سفر کریں گے تو پورے یورپ میں آپ کو سب سے ممتاز ترین عمارت اگر کوئی نظر آئے گی تو وہ گرجے کی ہوگی، بہت عظیم الشان، مگر وہ سب ویران ہوچکیں، ان میں خاک اڑ رہی ہے، کوئی عیسائی ان میں آنے کے لیے تیار نہیں اور مسلمان ان گرجوں کو خرید خرید کر مسجدیں بنا رہے ہیں اور یہودیوں کی جو کنیسہ ہیں، ان کی جو عبادت گاہیں ہیں مسلمان ان کو خرید کر مسجدیں بنا رہے ہیں۔
اس کی کوئی خبر آپ کو کہیں کسی ابلاغیاتی ذریعے پر نظر نہیں آئے گی، یہ BBC والا آپ کو نہیں سنائے گا، یہ CNNوالا نہیں سنائے گا، یہ آپ کے مسلمان ملکوں کے اندر جو ابلاغیاتی ذرائع ہیں وہ بھی چوں کہ غلام ہیں وہ بھی نہیں سنائیں گے، آپ کو کوئی یہ نہیں بتائے گا کہ برطانیہ میں، فرانس میں، جرمنی میں، ہالینڈ میں، ناروے میں جو مسلمان مرد اور عورتیں ہیں اور خاص طور پر جو عورتیں ہیں وہ کتنی زیادہ حساس ہیں اپنے حجاب اور اپنے پردے کے حوالے سے، آپ کے ہاں نہیں ہے وہ والا پردہ، جوپردہ وہ کرتے ہیں، یہ خبر کوئی آپ کو نہیں دے گا، مساجد کتنی آباد ہیں؟ ان مساجد کے اندر بچوں اور بچیوں کے لیے قرآن کریم سکھانے کا کتنا زبردست انتظام ہے، آپ کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اگر آپ کو کوئی یہاں سے برطانیہ لے جائے اور اسی کے دار العلوم کے اندر جاکر آپ کی آنکھوں سے پٹی اتارے اور آپ سے پوچھے کہ آپ کہاں ہیں؟ تو آپ کا جواب ہوگا کہ میں پاکستان میں ہوں، ہندوستان میں ہوں، کسی مسلمان ملک میں ہوں، سینکڑوں طلباء، ایک ایک دار العلوم میں، ایک ایک مدرسے میں، سینکڑوں طلباء ہیں۔
بنین کے مدارس الگ ہیں، بنات کے مدارس الگ ہیں، بنات کے ایک ایک مدرسے میں چھ چھ سو، آٹھ آٹھ سو، ہزار ہزار بچیاں پڑھتی ہیں۔
میں کیا عرض کر رہا ہوں کہ اسلام کی اشاعت کی کوئی خبر آپ کو نہیں ملے گی، روز جو آپ کو خبر ملے گی وہ بھی ہے میں اس کا انکار نہیں کرتا، لیکن جو مثبت خبریں ہیں، جو خبریں اگر مسلمانوں کو ملیں تو ان کی روحانی ترقی ہو، ان کو خوشی ہو، ان کی مایوسی ختم ہو۔
میرے دوستو! اس دین کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہے اور یہ طے ہے جو اصول اللہ تعالیٰ کا مدد ونصرت کے حوالے سے میدان بدر میں تھا، وہی آج ہے، وہ بدلا نہیں ہے، ”لا تبدیل لکلمات اللّٰہ“ اللہ کے فیصلے وہی ہیں۔
آج اگر آپ بدر والی صفات پیدا کر لیں، آج اگر آپ احد اور خندق والی صفات اپنے اندر پیدا کرلیں، اللہ کا وعدہ وہی ہے، ویسی ہی مدد آئے گی۔
میں نے اس منبر سے بار بار یہ بات کہی ہے کہ ہم لوگ تو بہت کم زور اور ضعیف ایمان والے ہیں، اللہ تعالی کی سنت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی موقع بموقع کچھ کچھ زمانوں کے بعد ضعیف ایمان والوں کے لیے ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ اگر ان کے پاس دیکھنے والی آنکھیں ہوں، اگر ان کے پاس سننے والے کان ہوں اور اگر ان کے پاس شعور اور ادراک کے لیے عقل اور سمجھ ہو تو ان حالات سے ان کا ایمان قوی ہوتا ہے۔
ہمارے پڑوس میں افغانستان ہے، روس وہاں آیا اور اچانک نہیں آیا، طویل محنت کر کے آیا، برسوں اس نے محنت کی اور ایسی محنت کی کہ وہاں کا سیاسی ماحول اپنے مطابق بنایا، وہاں کی بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں اپنی مرضی اور مزاج اور نظریات کی وہاں قائم کیں، ایک کا نام پرچم پارٹی، ایک کا نام خلق پارٹی، ایسے لوگ پیدا کیے جن کو بطور حکمران تخت پر بٹھایا جاسکے، جب روس افغانستان میں داخل ہوا تو شمال سے داخل ہوا اور اس نے اتنی محنت کی تھی کہ افغانستان کے شمال میں روس کے داخل ہونے پر کوئی مزاحمت نہیں ہوئی، بلکہ استقبال ہوا، لیکن اس کے بعد اللہ کے بندے کھڑے ہوئے اور روس کے خلاف جہاد ہوا، روس اس وقت کی سپر پاور تھا اور پوری دنیا کے اندر تجاوز کر رہا تھا، آگے بڑھ رہا تھا، افریقہ کے اندر وہ داخل ہوچکا تھا، مشرقی یورپ پر وہ قبضہ کر چکا تھا، ہمارے عرب ممالک کے اندر وہ داخل ہوچکاتھا، ہمارے اس ملک کے اندر اس کے ایجنٹ موجود تھے، شاعروں پر محنت ہوتی تھی، سکول، کالج، یونیورسٹیوں کے اساتذہ پر محنت ہوتی تھی، طلباء پر محنت ہوتی تھی، ہماری سیاسی پارٹیوں کے اندر جراثیم کمیونزم اور سوشلزم کے داخل کیے جاچکے تھے، لیکن اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ جب تم اللہ کی طرف رجوع ہوگے اور اللہ سے مدد حاصل کر کے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرو گے، تو میری مدد آئے گی چناں چہ اللہ کی مدد آئی، ساری دنیا نے دیکھا کہ روس، ریچھ، جیسا خوف ناک درندہ، ذلیل ہو کر رسوا ہو کر وہاں سے واپس ہوا، وہاں کی معیشت تباہ ہوگئی۔اس کا ملک برباد ہوگیا، سودیت یونین جو بڑی دنیا پر حکمران تھی وہ ٹوٹ پھوٹ گئی، جب کہ مقابلے میں کوئی بہت بڑی طاقت نہیں تھی، چند لوگ تھے، یہ اللہ تعالیٰ نے میرے اور آپ کے لیے کیا، ہم ضعیف الایمان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے دکھا دیا کہ اگر میرے احکام، میرے رسول کے بتائے ہوئے طریقوں، ان کی سنتوں پر عمل کروگے تو میں ویسے ہی مدد کروں گا جیسے میں نے بدر میں کی تھی۔
اس کے بعد پھر آپ دیکھیں، یہیں ہمارے پڑوس میں، پچاس ملک، دنیا کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پچاس ملک اکٹھے ہو کر ایک چھوٹے سے ملک پر، جو پہلے سے جنگ زدہ ہے، جو پہلے سے تباہ وبرباد ہے۔ جہاں کے لوگوں کے پاس نہ کھانے کو ہے، نہ پینے کو ہے، نہ پہننے کو ہے، کچھ بھی نہیں ہے، پچاس ملک اکٹھے ہو کر، دنیا کی ٹیکنالوجی کا عروج وہاں آیا، بیس سال تک اپنا خون چاٹتا رہا، اپنی ناک رگڑتا رہا، ذلیل ہوا، رسوا ہوا اور آخر میں اس کو شکست نہیں ہوئی، بلکہ آخر میں وہ وہاں سے بھاگا، فرار ہوا، یہ شکست سے زیادہ شرم ناک ہے، شکست کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں، جنیوا کنوینشن ہے، دونوں جرنیل بیٹھتے ہیں، فارم بھرے جاتے ہیں، دستخط کیے جاتے ہیں، قیدیوں کو نمبر دیے جاتے ہیں، ان کا حساب کتاب ہوتا ہے، ان کا اسلحہ، سامان اس سب کچھ کی لکھت پڑھت ہوتی ہے، طریقہ ہے اس کا، لیکن یہاں کیا ہوا؟ فرار، بھاگ گیا، رات کے اندھیرے میں، یہ سب کیا ہے؟ یہ سب اللہ تعالی ہمیں دکھا رہے ہیں کہ اللہ کا وعدہ ویسا ہی ہے ، ﴿إن الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا﴾
، جنہوں نے اللہ تعالی کی ربوبیت کا اعتراف کیا اور پھر جم گئے، ﴿تتنزل علیھم الملائکة ألاتخافوا ولا تحزنوا وأبشروا بالجنة التی کنتم توعدون﴾․
میرے دوستو! یاد رکھیں، اسلام سے زیادہ طاقت ور کچھ نہیں، آج دنیا میں جتنا بھی کفر ہے، وہ ملکوں سے نہیں ڈرتا، چاہے وہ امریکہ کا کفر ہو، چاہے برطانیہ کا کفر ہو، چاہے یورپ کا کفر ہو اور چاہے وہ ہندوستان کا کفر ہو، وہ ملکوں سے نہیں ڈرتے، وہ اسلام سے ڈرتے ہیں کہ اسلام کا ہم مقابلہ نہیں کرسکتے۔
ابھی چند سال پہلے ہی تو یہ ذلت آمیز شکست ہوئی، یہ بہت پرانا قصہ تو نہیں ہے، ہندوستان کے جرنیلوں کو سب کچھ پتہ ہے، باطل فوجوں کے جتنے سربراہ ہیں، ان کو یہ ساری تفصیلات جو ہمیں بھی معلوم نہیں، انہیں معلوم ہیں۔
تو میرے دوستو! اسلام پر مضبوط رہیں اور اسلام آج بھی پوری قوت کے ساتھ بڑھ رہا ہے، ہم سے چھپایا جا رہا ہے، ہم پر ظاہر نہیں ہونے دیا جاتا، ہمیں لا علم رکھا جاتا ہے، ہمیں مایوسی کی خبریں سنائی جاتی ہیں۔
ہمارے والد ماجد قدس اللہ تعالی سرہ فرماتے تھے کہ لوگ تقریروں میں کہتے ہیں کہ اسلام یورپ کے دروازوں کو کھٹکھٹا رہا ہے، حضرت والد صاحب فرماتے تھے کہ نہیں، ایسا نہیں ہے، اسلام یورپ کے دروازوں کے اندر داخل ہو کر ان کے بیڈروموں کے اندر داخل ہوچکا ہے، کھٹکھٹا نہیں رہا، اندر چلا گیا ہے۔
آپ اگر وہاں کے حالات اپنی آنکھوں سے جا کر دیکھیں، آپ وہاں کی مساجد اپنی آنکھوں سے جاکر دیکھیں، ہمارے تبلیغی احباب جو وہاں کا سفر کرتے ہیں، آپ ان سے کارگزاریاں سنیں، تو آپ کو پتہ چلے گا کہ آج سے بیس سال پہلے جہاں سو سو، دو دو سو میل تک کوئی مسجد موجود نہیں تھی، آج وہاں ہر میل پر مسجد موجود ہے، ہر جگہ مسجد موجود ہے، ہر جگہ مسلمان موجود ہیں، اور یہ بھی یاد رکھیں، خاص کروہ لوگ جو مسلمان ملکوں میں رہتے ہیں۔
ہمارا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے اسلام کے حوالے سے شرمندہ شرمندہ سے رہتے ہیں، بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی آج ایسی ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں کی شکل اور اللہ کے دشمنوں کی مشابہت اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن وہ مسلمان اللہ کے حکم پر عمل کرنے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت اختیار کرنے میں شرمندہ ہیں۔ حالاں کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس مبارک ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر، اس سے حسین ترین قیامت تک کوئی آہی نہیں سکتا۔
لیکن ہم کس کی مشابہت اختیار کرتے ہیں روزانہ؟ اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں اللہ کے دشمنوں کی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کی، اسلام کے بارے میں مسنون زندگی اختیار کرتے ہوئے ہمیں شرم آتی ہے اور رکاوٹ کسے بتاتے ہیں کہ جی بیوی ناراض ہوجائے گی، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
۔ اللہ ناراض ہوجائیں گے اس کا خیال نہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوجائیں گے اس کا خیال نہیں ہے، بیوی ناراض ہو جائے گی، اس کا خیال ہے بیوی دین پر عمل کرنے میں شرما رہی ہے، کیوں؟ شوہر ناراض ہو جائیں گے، بھائی ناراض ہوجائے گا، خاندان ناراض ہوجائے گا، معاشرہ ناراض ہوجائے گا، لوگ کیا کہیں گے؟!
میرے دوستو! یاد رکھیں کہ اسلام ہی وہ دین ہے، اسلام ہی وہ مذہب ہے، اسلام ہی وہ طریقہ حیات ہے جو قیامت تک کے لیے ہے، اب کوئی نبی نہیں آئے گا، اب کوئی رسول نہیں آئے گا کہ کوئی دوسرا رسول آکر وہ آپ کو اپنے طریقے بتائے گا، نہ نہ، ختم ہوگیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔
آپ کی وضع، آپ کا طریقہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین وہی قیامت تک چلے گا، اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔