برصغیر پاک وہند میں اسلام کی آمد بہت قدیم ہے۔ دنیا کے دیگر خطوں کی طرح یہاں بھی اولیاء ، صلحاء اور سلاطین بڑی تعداد میں پیدا ہوئے، جنہوں نے دین اسلام کی خدمت اور آبیاری کی ، جس سے خطے کو علمی ودینی حوالے سے ایک نمایاں مقام ومرتبہ عطا ہوا۔ اسلام یہاں کے باسیوں کے رگ وریشے میں رچ بس گیا۔ علماء وصلحاء کی ایک بڑی تعداد نے انسانیت کی صلاح وفلاح او رخدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا، جس کی وجہ سے اسلام اس خطے کے چپے چپے پر پھلا پھولا، لوگوں کی زندگیوں میں خیر کا انقلاب آیا اور اسلام کی تعلیمات سے انہوں نے شعور وآگہی حاصل کی۔ بعد ازاں مسلمانوں کے اعمال بد کی وجہ سے دنیا کے دیگر خطوں کی طرح اس خطے میں بھی مسلمانوں کی سلطنت وسطوت میں زوال آیا اور انگریز نے یہاں اپنے استعماری واستبدادی پنچے گاڑے، ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے اور مسلمانوں سے ان کی سلطنت وسطوت چھین کر انہیں مغلوب ومقہور کیا۔ پھر چند غیور علماء اور راہ نماؤں کی قیادت میں مسلمانوں نے انگریز کو بھگانے کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں اور اپنی سطوت گم گشتہ کے حصول کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دی ،جس کے نتیجے میں انگریز یہاں سے اپنا بوریا بستر گول کرنے پر مجبور ہوا اور بالآخر مسلمانوں کے لیے پاکستان کی صورت میں ایک الگ ریاست تشکیل دینے کی صورت پیدا ہوئی۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس الگ ریاست میں قرآن وسنت اور دین اسلام کے مطابق زندگی گزار سکیں ، جو ہندؤوں اور دیگر غیر مسلموں کے جبر واستبداد اور طرز زندگی سے پاک وصاف ہو۔ اس وقت پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے تقریباً ستر برس سے زائد گزر چکے ہیں لیکن شومئی قسمت کہ وہ خواب شرمندہٴ تعبیر نہیں ہو سکا، جس کی وجہ سے یہ مملکت خداداد معرض وجود میں آئی تھی، جس کا اصل سبب تو ہمارے اپنے اعمال ہی ہیں، البتہ ایک ظاہری سبب یہ ہے کہ یہاں سے جاتے ہوئے انگریز جو نظام تعلیم تشکیل دے کر گیا ہے، اس نے اس کے ذہن وفکر، بودوباش، معاشرت اور طرز زندگی کو باقی رکھا۔ یہاں حکومت کرنے والے لوگ اس نظام تعلیم کے پروردہ اور تعلیم یافتہ تھے، اگرچہ وہ نام کے لحاظ سے مسلمان اور اس خطے کے باسی تھے، لیکن طرز فکر کے اعتبار سے انگریز کے خوشہ چین اور ان کے مفادات کے پاسبان ونگہبان تھے۔
انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے بجائے انگریز کو خوش کرنے کے لیے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش وسعی جاری رکھی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، بلکہ اس میں مزید اضافہ ہو چکا ہے اور دن بدن صورت حال ابتر ہوتی جارہی ہے۔ چوں کہ اس مملکت کا وجود ہی اسلام کے نفاذ کی خاطر ہوا تھا، اس لیے یہاں کے رہنے والوں میں روز ِ اول ہی سے بے چینی کی کیفیت رہی اور دن بدن اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا، جو بدستور جاری ہے۔ ملک کے ارباب حل وعقد اور اصحاب فکر ونظر کو اس پر سنجیدہ غور کرنے کی ضرورت ہے اور اسی میں مسلمانوں کی کام یابی وکام رانی اور اس مملکت خداداد کی ترقی وخوش حالی کا راز مضمر ہے۔ الله تعالیٰ پاکستان کا حامی وناصر ہو اورہمیں صحیح سوچ وفکر اور درست سمت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وماتوفیقی إلا بالله علیہ توکلت وإلیہ أنیب․