اسلام دین فطرت ہے، اس نے انسان کو اس کے تمام شعبہ ہائے حیات میں کوئی ایسی تعلیم نہیں دی جہاں فطرت سے انحراف و فرار لازم آتا ہو، نکاح و ازدواجی زندگی بھی ناگزیر انسانی فطری تقاضوں میں سے ایک ہے، اس لیے اسلام نے نہ صرف اس کی تعلیم دی، بلکہ تجرد کی زندگی سے سختی کے ساتھ منع فرمایا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ رہبانیت کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ۔ انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام جو عمدہ ترین فطرت انسانی کے حامل ہوتے ہیں ۔ انھوں نے بھی تجرد کی زندگی نہیں گذاری، ارشاد باری ہے:﴿ولقد ارسلنا رسلا من قبلک و جعلنا لہم ازواجاً و ذریة﴾ اے نبی !ہم نے آپ سے قبل بہت سے انبیاء کرام کو بھیجا اور ہم نے ان کے لیے بیویاں اور اولاد بنائیں۔ ترمذی شریف کی ایک روایت کا مفہوم ہے کہ چار چیزیں انبیاء کی سنت ہیں ۔ حیا، تعطر ، مسواک، نکاح ۔ یعنی تمام ہی انبیا ازدواجی زندگی بسر کیا کرتے تھے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا نکاح میری سنت ہے اور فرمایا کہ جو میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ میں سے نہیں (میرے طریقے پر نہیں)۔ یعنی تجرد کی زندگی غیر فطری ہی نہیں بلکہ غیر اسلامی طریقہ بھی ہے۔ آج غیروں کی دیکھا دیکھی اور کچھ غیر معتدل اور جھوٹے معیار زندگی کی وجہ سے، جو خاص طور پر پڑھے لکھے لوگوں کے دماغ پر خبط کی طرح سوار ہے، دیکھا یہ جا رہا ہے کہ مسلمانوں کے گھروں میں 35-35 سال کی عمر تک لڑکے اور لڑکیاں بن بیا ہے موجود ہیں، یہی عمر ازدواجی زندگی گزارنے کی عمر ہوتی ہے، جو تجرد کی حالت میں گزر جاتی ہے، اسے رہبانیت تو نہیں کہا جا سکتا ،پر رہبانیت سے بدتر ضرور کہا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اُس رہبانیت کا مقصد رضائے مولی تھا اور اِس کا صرف اور صرف مادہ اور دنیا۔
حضرت علی رضی الله عنہ کا فرمان ہے کہ میرے محبوب خاتم المرسلین نے پانچ کاموں میں جلدی کرنے کی وصیت فرمائی : نماز میں اس کے فوت ہونے سے پہلے، تو بہ کرنے میں موت آنے سے پہلے، کفن دفن میں جب کسی کی موت ہو جائے، قرض کی ادائیگی میں ، جب بیٹا بیٹی بالغ ہو جائیں اور ان کا کوئی مناسب رشتہ مل جائے تو شادی کرنے میں ۔
آج شہروں کی حالت دیہاتوں سے زیادہ بدتر ہے۔ یہاں لوگوں کو مناسب رشتہ نہیں ملتا اور اگر ملتا بھی ہے تو اتنا مہنگا کہ شادی کرنے کی لڑکی والوں کے پاس سکت نہیں ہوتی ۔ یہ دونوں ہی با تیں غیر اسلامی اور غیر مناسب ہیں۔ مہنگی شادی غیر اسلامی شادی ہے۔ اسلام نے شادی کو بہت سستا رکھا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں میں شادیاں مہنگی رہیں وہاں زنا ستا رہا۔ اور جہاں شادیاں سستی رہیں وہاں زنا مہنگار ہا۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے جب اپنی سب سے پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کا نکاح کرنا چاہا تو آپ کو سب سے مناسب حضرت علی رضی الله عنہ سے رشتہ ملا۔ پر حضرت علی مرتضی رضی الله عنہ کے پاس کیا تھا؟ کچھ بھی نہیں، خود ان کی زرہ فروخت کر کے آپ نے مہر اور رخصتی کا سامان تیار فرمایا۔ گھر میں اکثر فاقہ رہتا تھا۔ حضرت فاطمہ خود چکی پیستی تھیں اور کمر پر پانی کی مشک اٹھا کر لاتی تھیں، لیکن حضرت علی مرتضی رضی الله عنہ شیر خدا تھے ،ان کے سینے میں شیر جیسا دل تھا۔ بھر پور جوانی اور ایک صاف ستھری بے داغ سیرت کے حامل تھے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ دین دار تھے اور یہی چیزیں آپ کو اپنی لاڈلی بیٹی سیدہ حضرت فاطمہ الزھراء رضی الله عنہا کے لیے درکار تھیں، کیا ایک مسلمان کے لیے تلاش رشتہ کے وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی یہ سنت کافی نہیں؟ اور کیا کوئی لڑکا یالڑ کی حضرت فاطمہ اور علی رضی الله عنہما سے بھی افضل ہو سکتا ہے؟
آج لوگ رشتہ تلاش کرنے میں لڑکے یا لڑکی کی دین داری کا قطعاً لحاظ نہیں کرتے ، صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکے کے پاس کتنی پراپرٹی ہے؟ لڑکا بزنس مین یا بر سر روزگار ہے یا نہیں؟ اس طرح لڑ کی اپنے باپ کے گھر سے کتنی دولت لاسکتی ہے وغیرہ۔
اسی ناپ تول میں عمریں ڈھل جاتی ہیں، جو نتیجہ ہے سنت سے انحراف اور جھوٹے معیار زندگی کو اپنے اوپر مسلط کر لینے کا۔ شریعت نے اس بارے میں ایک معیار اور پیمانہ خود ہی مقرر کر دیا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عورت سے چار باتوں کے لیے نکاح کیا جاتا ہے۔ مال کے لیے، جمال کے لیے، نسب کے لیے اور دین کے لیے، پر تم دین کو ترجیح دو، دین والی کے ساتھ نکاح کر کے کام یاب ہو جاؤ۔ اور آپ نے اخیر میں دعائیہ جملہ بھی ارشاد فرمایا – تربت یداک – اس کا ترجمہ الفاظ سے ہٹ کر یوں کیا جا سکتا ہے کہ تیرے دونوں ہاتھ میں لڈو ہوں ۔
ایسے لڑکے اور لڑکیاں جو بالغ ہونے کے باوجود بن بیا ہے ہوں انھیں آپ نے مسکین اور قابل رحم فرمایا کہ یہ بے چارے مسکین ہیں۔
آج بہت سے مسلم خاندانوں میں دیکھا جا رہا ہے کہ لڑکیاں تیس تیس، چالیس چالیس سال کی ہوگئی ہیں، لیکن شادی نہیں ہوئی ۔ گھروں میں صرف اس انتظار میں بیٹھی ہیں کہ کسی دولت مند گھرانے سے رشتہ آئے یاکوئی یورپ میں رہنے والا لڑکا آئے اور مجھ سے شادی کر لے ۔ یہ رجحان غلط اور خلاف سنت ہے۔ اسی سنت کی خلاف ورزی کی نحوست ہے کہ مسلم معاشرہ طرح طرح کی برائیوں اور شرم ناک عیوب کے بوجھ سے دبا جا رہا ہے۔
اس لیے ضرورت ہے کہ مسلمان ہوش کے ناخن لیں ۔ خصوصاً بن بیاہی نو جوان نسل پر فرض عائد ہوتا ہے وہ آگے بڑھے اور لڑکا اپنے والدین اور رشتہ تلاش کرنے والوں سے کہے کہ مجھے مال دار اور بہت زیادہ جہیز لانے والی نہیں، بلکہ پاک دامن ، دین دار ، تن درست اور قبول سیرت وصورت لڑکی چاہیے اور بس ۔
اسی طرح لڑکی کو بھی اپنے اولیاء سے جو رشتہ کے لیے دن رات طرح طرح کی ادھیڑ بن اور ناپ تول میں مبتلا ہوں صاف صاف کہہ دینا چاہیے کہ میرے لیے رشتہ کی تلاش میں اوّلین ترجیح دین داری ، اعلیٰ کرداری، ہم عمری اور تن درستی و غیرہ کو دی جائے، نہ کہ سب کو چھوڑ کر صرف مال داری کو ۔
بارہا دیکھا گیا اور پڑھا گیا کہ ہزار ہا غور وخوض اور تلاش وجستجو کے بعد کوئی مال دار یا نوکری پیشہ یا برسرِ روز گار لڑکا ملا، بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی لیکن لڑکی ایک ماہ بھی سسرال نہ رہ سکی وجہ یہ دریافت ہوئی کہ شوہر نام دار کی نگاہیں نیچی نہیں رہتیں بلکہ اوپر اوپر ہی رہتی ہیں، معلوم ہوا کہ اگر دین داری، اعلیٰ کرداری وغیرہ کی رعایت کی گئی ہوتی اور صرف دولت کی چکا چوندھ پر آنکھیں نہ موندلی گئی ہوتیں تو یہ نوبت نہ آتی اور یہ برے دن نہ دیکھنے پڑتے، الله ہی حفاظت فرمائے اور احساس وعمل کی توفیق دے آمین۔