
اسلام کے علاوہ دوسرے نظاموں میں انسانی دنیا کی ہلاکت وبربادی ہے
محترم حضرات! شخصی حکومتوں اور ملوکانہ جبر واستبداد اور حاکمانہ خود غرضیوں اور شہوت پرستیوں وغیرہ کی وجہ سے عالم انسانی پر جو جو بربادی اور ہلاکت کے پہاڑ ٹوٹا کرتے تھے ان سے تنگ آکر انسانی دنیا نے انقلاب کے دروازے کھولے اور جگہ جگہ جمہوری نظام جاری کیا گیا۔ اگرچہ بعض ممالک میں شاہی خاندانوں کو بھی باقی رکھا گیا۔ مگر ان کو اس قدر بے دست وپا کر دیا گیا تھا کہ نظم ونسق اور عام رعایا کے متعلق کسی قسم کے تصرف کا اختیار باقی نہیں رکھا گیا تھا۔ یہ جمہوری نظام اگر چہ ظاہری نظر میں عام انسانوں کے لیے خوش کُن تھا اور ممکن ہے کہ ابتدائی مراحل میں اس میں پوری طرح ہر عام وخاص، غریب وامیر کا لحاظ بھی رکھا گیا ہو۔ مگر اقتدار کے قائم ہوتے ہی بوالہوسی اور سرمایہ پرستی کا غلبہ ہوگیا۔ غرباء مزدوروں کے خون وپسینہ سے ہولی کھیلی جانے لگی۔ نظام میں اس قدر سرمایہ پرستی، خود غرضی اور یورپین قومیت کی لعنت گھس گئی کہ تمام انسانی دنیا شخصی حکومتوں سے اس قدر ہلاکت اور بربادی کا شکار نہیں ہوئی جتنی کہ اس فریبانہ جمہوریت اور نام نہاد خدمت خلق سے ہونے لگی۔ بالآخر عالم انسانی میں دوبارہ انقلاب کا نشو و نما ہوا۔ اس غلط اور برباد کن جمہوریت کے نظام کو توڑنے اور اس کو مٹا دینے کے ولولے ظہور پذیر ہوئے اور بزعم خود اصلاح خلق اور ان کی عام پرورش کا بیڑا اٹھایا گیا۔ کہیں سے بالشویزم کی صدا اٹھی، کہیں سوشلزم کی آواز بلند ہوئی۔ کہیں سے نازی ازم کا ڈنکا بجا۔ کہیں فیسی ازم کا صور پھونکا گیا۔ کہیں سے ڈکٹیٹر شپ کی آوازیں اٹھیں، کہیں سے یورپین ازم اور کہیں سے پاپائی ازم اور مشرقی ازم کا راگ گایا گیا۔ مگر واضح رہے کہ یہ تمام ازم کسی طرح امن وامان عام اور حقیقی خدمت خلق کے متکفل نہیں ہیں اور ان کا ملعون اثر آج آفتاب سے زیادہ ظہور پذیر اور دنیا میں روشن ہے۔ ان نظاموں کی بدولت آج انسانی دنیا جس ہلاکت وبربادی میں مبتلا ہے۔ اس کی نظیر ابتدائے عالم سے لے کر آج تک نہیں ملتی۔
﴿ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقہم بعض الذي عملوا لعلہم یرجعون﴾.
کھل پڑا اور پھیل گیا ہے فساد جنگلوں اور سمندروں میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ چکھایا جائے ان کو کچھ مزہ ان کے کاموں کا، شاید کہ وہ لوٹ آئیں۔
ہم اس وقت صحیح اور کامل نظام دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں اور ضروری سمجھتے ہیں کہ ساڑھے تیرہ سو سال کی آواز سے دنیا بھر کو پھر بیدار کر دیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات اور تمام کا ئنات کا مخدوم بنایا ہے
خداوند کریم جس طرح تمام چھوٹوں، بڑوں، انسانوں، حیوانوں، فلکیات اور عنصریات، نباتات اور جمادات، ملائک اور جنات، روح اور مادہ غرض ہر شے کا خالق اور بنانے والا ہے۔ اسی طرح وہ سب کا پرورش کرنے والا اور مربی بھی ہے اور جس طرح وہ عرش سے لے کر فرش تک سب کا شہنشاہ اور مالک ہے۔ اسی طرح وہی سبھوں پر حاکم اور ہر چیز کا جاننے والا بھی ہے۔ وہ جس قدر ان کی ضرورتوں اور منافع و مضار کو جانتا ہے کوئی دوسرا نہیں جان سکتا۔ اور جس قدر وہ ان کا خیر خواہ اور شفیق ہے، کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا ہے۔ اس نے انسان کو اشرف المخلوقات اور تمام کائنات کا مخدوم بنایا ہے اور اسی نے تمام روئے زمین کے انسانوں کو ایک انسان حضرت آدم علیہ السلام سے پیدا کیا ہے۔ ﴿ھوالذی خلقکم من نفس واحدة﴾․
اللہ تعالیٰ کا نظام ہر خاص وعام اور ہر فرد وجماعت کے لیے مفید ہے
جب کہ فطری قاعدہ ہے کہ ہر بنانے والے کو اپنی بنائی ہوئی چیز سے محبت ہوتی ہے۔ جیسے کہ ہر پالنے والے کو اپنی پالی ہوئی چیز سے محبت ہوتی ہے، بالخصوص جب کہ کسی چیز کے بنانے اور پالنے میں زیادہ تر کنج وکاوٴ اور توجہ کی گئی ہو۔ اس لیے اس کو تمام انسانی دنیا سے انتہائی محبت اور خیر خواہانہ شفقت ہوگی، اگر پہلی گذارش کی شہادت ”لما خلقت بیدی“ سے ملتی ہے تو دوسری عرض کی گواہی تمام انسانوں کے باپ کی مسجودیت اور ان کی خلافت ﴿ان اللہ بالناس لرؤوف رحیم﴾ جیسی آیات سے ملتی ہے۔ اس کی نظر میں کالے اور گورے، ایشیاٹک اور یورپین، افریقی اور امریکن، عرب اور عجم، سفید وسرخ، زرد وسیاہ نسلوں کا کوئی فرق وامتیاز نہیں ہے۔ جس طرح ایک باپ کی متعدد اولاد سب کی سب اس کے مراحم والطاف کی مستحق ہوتی ہے اور وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھتا اور سب کی انتہائی بہبودی کا چاہنے والا ہے۔ اس لیے اس خالق الکل رب العالمین کا بنایا ہوا انسانی نظام ہی ہر خاص و عام اور ہر فرد وجماعت کے لیے مفید اور کارآمد اور انتہائی منفعت کا کفیل ہوسکتا ہے۔
اسلامی نظام میں اغراض پرستی اور دوسروں کی اہانت وتذلیل وغیرہ کا شائبہ نہیں ہے
انسانوں کے خود ساختہ نظام سے خدائی نظام یقیناً ہر قسم کے غل وغش اور تمام آلائشوں سے پاک ہوگا۔ اس میں اغراض پرستی اور دوسروں کی اہانت وتذلیل وغیرہ کا شائبہ بھی نہ ہوگا اور اسی کے نظام میں حقیقی جمہوریت وشورائیت پائی جائے گی۔ اس میں ہر ہر فرد انسانی سے وہ محبت والفت بھری ہوگی جو کہ ان کے ماں باپ اور عزیز واقارب میں بھی نہیں پائی جاتی۔ اس میں کسی سے دشمنی، رقابت وغیرہ نہ ہوگی، اس میں اچھوت، برہمن اور شودر، سید اور شیخ، بڑی ذات چھوٹی ذات وغیرہ کی کوئی تمیز نہ ہوگی۔ ہاں! فرق صرف اس قدر ضرور ہوگا کہ نظام میں داخل ہونے والے مطیع وفرمان بردار، مستحق اعزاز واکرام اور نظام سے گریز کرنے والے باغی ونافرمان اور مستحق اہانت وتذلیل قرار دیے جائیں گے۔ خواہ وہ کسی نسل اور قوم سے تعلق رکھنے والے ہوں اور کسی ملک کے باشندے اور کسی رنگ کے آدمی ہوں، اس میں کسی شخص یا جماعت یا قوم پر ظلم وتعدی کو گوارا نہ کیا جائے گا۔ ﴿ان اللہ لا یحب الظلمین﴾․ ﴿ومن یظلم منکم نذقہ عذابا کبیرا﴾․
اسلامی نظام کے فوائد اور انسانوں کے بنائے ہوئے نظاموں کے نقصانات
اس کے تمام قوانین اور اصول رحمت وشفقت سے پُر ہوں گے اور حقیقی عروج وترقی کی روح اس میں کار فرما ہوگی۔ اس میں عام امن وامان، عدل وحقوق، فضل واحسان کوٹ کوٹ کر بھرا ہوگا۔ اس میں حاکم وراعی کو تمام رعایا کی پوری رعایت اور خبر گیری اور خیر خواہی کا حکم ہوگا۔ اور وہی سب کا طرف دار اور پرسان حال ہوگا۔
کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ․ الحدیث
اس میں روحانی تربیت، اخلاقی ترقیات، خالق ومخلوق کے تعلقات، مخلوقات میں آپس کے تعلقات، سب کے مراتب کا لحاظ وغیرہ کامل درجہ کا ہوگا۔ انسانوں کا بنایا ہوا نظام، خواہ شخصی ہو یا جماعتی، فوجی ہو یا سیاسی، اقتصادی ہو یا تجارتی، خواہ حکماء اور فلاسفہ کا بنایا ہوا ہو یا ارباب سیاست وحکومت کا، اگر خداوندی نظام کے زیر سایہ نہ ہوگا اور اس کی روشنی سے اس میں استفادہ نہ کیا گیا ہوگا تو یقیناً اس میں ہر جگہ خود غرضیاں اور ایسی خامیاں ہوں گی جن سے ہر قسم کے فتنہ وفساد، ظلم وعناد، ہلاکت اور بربادی کا نشوونما ہوگا۔ خواہ وہ نازی ازم ہو یا بالشویزم، نیشنلزم ہو یا سوشلزم، فینسی ازم ہو یا کوئی اور ازم۔
اسلامی نظام میں ہر فرد بشر کے ساتھ انصاف وعدالت کی تاکید کی گئی ہے
میرے محترم بزرگو! آج اسلام ازم ہی وہ خداوندی نظام ہے کہ جس میں حقیقی جمہوریت اور سچی آمریت کو باحسن وجوہ جمع کر دیا گیا ہے اور جس میں ہر ہر فرد بشر کے ساتھ انصاف و عدالت کی تاکید کی گئی ہے۔
﴿وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ﴾ (سورة النساء)
اور جب فیصلہ کرنے لگو لوگوں میں، تو فیصلہ کرو انصاف سے۔ اُس کا طرہ امتیاز ہے۔
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِینَ لِلّٰہِ شُہَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی﴾ (المائدة ع 2)
”اے ایمان والو! کھڑے ہو جایا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو انصاف کی اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، عدل کرو، یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ سے“۔ اس کا عادلانہ قانون ہے۔
آیتِ اولیٰ میں عدل وانصاف کا ارشاد تمام انسانوں کے لیے کیا گیا ہے۔ خصوصیت مسلم یا مومن کی نہیں ہے۔ اسی طرح دوسری آیت میں نہایت زور سے حکم کیا گیا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی کی حالت میں بھی عدل وانصاف کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اور اسی طرح گواہی بھی محض اللہ کے لیے ہونی چاہیے اور حق بات کو ہرگز نہیں چھپانا چاہیے اور اغراض کا بندہ نہیں ہونا چاہیے۔
﴿یا أیہا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شہداء للہ ولو علی أنفسکم أو الوالدین والأقربین، إن یکن غنیاً أو فقیراً فاللہ أولی بہما فلا تتبعوا الہوی أن تعدلوا، وإن تلوا أو تعرضوا فإن اللہ کان بما تعملون خبیراً﴾․ (سورة النساء، رکوع 2)
اے ایمان والو! قائم رہو انصاف پر اور اللہ کی طرف، اگرچہ نقصان ہو تمہارا، تمہارے ماں باپ کا، قرابت داروں کا، اگر کوئی مال دار ہے یا محتاج ہے تو اللہ ان کا خیر خواہ تم سے زیادہ ہے۔ سو تم پیروی نہ کرو دل کی خواہش کی انصاف کرنے میں اور اگر تم زبان ملو گے یا بچا جاؤ گے تو اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔ (زبان ملنا یہ ہے کہ سچ بات تو کہی، مگر زبان دبا کر اور پیچ سے کہ سننے والے کو شبہ پڑ جائے، یعنی صاف صاف سچ نہ بولا اور بچا جانا یہ ہے کہ پوری بات نہ کہی، بلکہ کچھ بات کام کی رکھ لی، سو ان دونوں صورتوں میں اگرچہ جھوٹ تو نہیں بولا، مگر بوجہ عدم اظہار حق گناہ گار ہوگا۔ گواہی سچی اور پوری دینی چاہیے۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں سے عہد لینا اور تمام دنیا کو طریقہ بتانا
ان آیات سے وہ اصول و قوانین معلوم ہوتے ہیں جن سے تمام عالم انسانیت انتہائی امن وامان اور خوش حالی وفارغ البالی کی زندگی بسر کر سکے۔ پس اسی انضباط نظام کے لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے مندرجہ ذیل عہد لیا اور پوری دنیا کو یہ طریقہ بتایا:
بایعنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی السمع والطاعة فی العسر والیسر…․ الحدیث․ (متفق علیہ)
ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی کہ ہر حالت میں سنیں گے اور اطاعت کریں گے، خواہ تنگی ہو یا فراخی، خوشی ہو یا ناخوشی، یا ہم پر ترجیح دی جائے اور اس بات پر کہ اولی الامر سے امارت میں کشمکش نہیں کریں گے اور جہاں کہیں بھی ہوں حق بات کہیں گے۔ خدا لگتی بات کہنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔
استبداد اور خود رائی سے کنارہ کشی اور مشورہ سے تمام کاموں کو انجام دینا
یہ وہ تعلیم ہے کہ آزادی رائے کے ساتھ ساتھ حقیقی نظام حکومت کامل طریقہ پر اسی طرح چل سکتا ہے۔ اور جبر واستبداد اور خود رائی کی جڑ کھودنے کے لیے ارشاد فرمایا گیا۔
﴿فبما رحمة من اللہ لنت لہم ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک فاعف عنہم واستغفر لہم وشاورہم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ان اللہ یحب المتوکلین﴾․ (سورة آل عمران)
اللہ تعالیٰ ہی کی رحمت ہے جو نرم دل مل گیا ان کو اور اگر تو ہوتا تندخو، سخت دل تو متفرق ہو جاتے تیرے پاس سے۔ پس تو ان کو معاف کر اور ان کے واسطے بخشش مانگ اور ان سے مشورہ لے کام میں۔ پھر جب قصد کر چکا تو اس کام میں تو بھروسہ کر اللہ پر، اللہ کو محبت ہے تو کل والوں سے۔
اور مستحقین انعام خداوندی کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
﴿والذین استجابوا لربہم واقاموا الصلوة وامرہم شوری بینہم ومما رزقنہم ینفقون﴾․ (سورہٴ شوریٰ)
اور جنہوں نے حکم مانا اپنے پالنے والے رب کا اور قائم کیا نماز کو اور کام کرتے ہیں مشورہ سے آپس کے اور ہمارا دیا کچھ خرچ کرتے ہیں۔
ان دونوں آیتوں میں استبداد اور خودرائی سے کنارہ کشی اور مشورہ سے تمام کاموں کے انجام دینے اور نرم خوئی اور لوگوں کی غلط روی سے چشم پوشی اور حقوق رب العالمین کے ادا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ جس سے اجتماعی طاقت کا پورا تکفل ہو سکتا ہے اور سب کے حقوق کی مکمل نگرانی ہوتی ہے۔
مالک حقیقی کے سامنے تم سب مسئول اور ذمہ دار ہو
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کو، خواہ وہ حکام ہوں یا رعایا، خطاب فرماتے ہیں۔
الا کلکم راع، وکلکم مسئول عن رعیتہ، فالامام الذی علی الناس راع وھو مسئول عن رعیتہ، والرجل راع علیٰ اھل بیتہ وھو مسئول عن رعیتہ، والمراة راعیة علیٰ بیت زوجھا وولدہ، وھی مسئولة عنہم وعبد الرجل راع علی مال سیدہ وھو مسئول عنہ، الا وکلکم راع، وکلکم مسئول عن رعیتہ․ او کما قال․ (متفق علیہ)
خبردار ہو جاؤ، تم سب کے سب راعی اور مالی ہو (چوں کہ حاکم پر اپنے محکوم اور رعایا کی خبرگیری اور خیرخواہی اسی طرح لازم کی گئی ہے جس طرح جانور چرانے والے پر جانوروں کے مالک کی طرف سے لازم کی جاتی ہے۔ اگر چرواہا جانوروں کی خیرخواہی اور خدمات مفیدہ کے انجام دینے میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ اپنے مالک کو جواب دہ اور مسئول ہے۔ اس لیے حکام کو راعی کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔)
بادشاہ جو لوگوں پر مقرر کیا گیا ہے وہ نگہبان ہے اور اپنی رعیت سے مسئول ہے اور آدمی اپنے اہل وعیال کا نگہبان ہے اور ان سے متعلق مسئول ہے اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور اپنی رعیت سے مسئول ہے۔ اور آدمی کا غلام اس کے مال کا نگہبان ہے اور وہ اس سے متعلق مسئول ہے۔ خبردار ہو جاؤ، تم سب راعی ہو اور اپنی رعیت سے مسئول ہو۔
یہ وہ صحیح نظام حکومت کے اصول ہیں، جن کے ہوتے ہوئے کسی حاکم کو بے دھڑک ہو کر رعایا کی خیرخواہی سے بے پروا ہو جانا یا ان کے حقوق اور مصالح کو پامال کرنا یا ان کی بہبودی سے غافل ہونا درست نہ ہوگا۔ ان میں بتلا دیا گیا ہے کہ مالک حقیقی کے سامنے تم سب مسئول اور ذمہ دار ہو۔ خبردار ہو جاؤ اور اس کے سوال سے ڈرو۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اگر مسلمان رعایا کا والی اور حاکم بنایا گیا اور اس حالت میں مرا کہ وہ ان کے حقوق میں خیانت کرنے والا ظالم تھا تو جنت اس پر حرام ہوگی۔
دوسری جگہ ارشاد ہے۔
ما من عبد یسترعیہ اللہ رعیة فلم یحطھا بنصیحة الا لم یجد رائحة الجنة․ (متفق علیہ)
کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کسی کا راعی اور حاکم بنایا اور اس نے ان کی نگہبانی اور حفاظت ان کی خیر خواہی کے ساتھ نہ کی تو اس کو جنت کی خوش بو بھی نہیں ملے گی۔
اس نظام میں ہر حاکم اور والی کو اپنی تمام رعایا سے ہم دردی کا شدید ترین حکم دیا گیا ہے
یہ وہ نظام ہے جس میں ہر حاکم اور والی کو اپنی تمام رعایا، خواہ اس کی قوم سے ہو یا دوسری قوم کی ہو، خواہ وہ نظام اسلامی میں داخل ہو یا نہ ہو، سب کی خیر خواہی اور ہم دردی کا حکم دیا گیا ہے۔
ایک جگہ ارشاد فرمایا:
ان المقسطین عند اللہ علی منابر من نور عن یمین الرحمن․ الحدیث (متفق علیہ)
انصاف اور عدل کرنے والے اللہ تعالیٰ کے داہنی طرف نور کے منبروں پر ہوں گے اور یہ وہ لوگ ہیں جو کہ اپنے حکم میں ا ور اپنے اہل وعیال اور اپنی رعایا میں عدل وانصاف کرتے ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
بدترین راعی اور حاکم کون ہے؟
ان شر الرعاء الحطة․ (رواہ مسلم)
یعنی سب سے بدترین راعی اور والی وہ بادشاہ اور حکام ہیں جو کہ لوگوں کو توڑتے ہیں، یعنی رعیت پر ظلم کرتے ہیں اور ان پر رحم نہیں کرتے، لوگوں کے مال میں طمع کرتے ہیں اور اپنی نفسانی ارادوں کو پورا کرتے رہتے ہیں۔
ایک اور جگہ فرمایا:
ما من أمیر عشرة إلا یؤتی بہ یوم القیامة مغلولا حتی یفک عنہ العدل أو یوبقہ الجور․ (دارمی)
اگر دس آدمیوں پر بھی کوئی امیر ہوگا تو وہ قیامت کے دن ہتھکڑی میں بند لایا جائے گا اور جب تک کہ اس کا عدل اس کو کھول نہ دے یا اس کا ظلم ہلاکت میں نہ ڈال دے اسی طرح رہے گا۔ ایک جگہ ارشاد ہے:
ألا! من ظلم معاھدا او انتقصہ او کلفہ فوق طاقتہ او اخذ منہ شیئا بغیر طیب نفسہ فانا حجیجہ یوم القیامة․ (ابو داود)
کسی غیر مسلم رعیت پر ظلم کیا یا اس کی توہین کی یا اس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف دی یا اس سے کچھ اس کی خوشی کے بغیر لے لیا، تو میں قیامت کے دن اس کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔
ارشاد فرمایا جاتا ہے:
من قتل معاھدا لم یرح رائحة الجنة وان ریحھا توجد من مسیرة اربعین خریفا․ (البخاری)
جس نے کسی غیر مسلم رعیت کو قتل کر دیا تو اس کو جنت کی خوش بو بھی نہ ملے گی، حالاں کہ جنت کی خوش بو چالیس برس کی دوری تک جاتی ہے۔ (یعنی داخل ہونا تو درکنار، جنت کی قریب بھی نہ جاسکے گا۔)
تمام مخلوق اور بالخصوص تمام انسانوں کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی کرنا ضروری ہے
یہ نظام اور اصول رعایا پروری اور ان میں عدل وانصاف کے ہیں، جن میں مسلم، غیر مسلم، چھوٹے بڑے، مرد عورت، ہم قوم غیر قوم، دیسی پردیسی وغیرہ وغیرہ، سب کے ساتھ مساوات وعدالت کا ارشاد کیا گیا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
ان اللہ یعذب الذین یعذبون الناس فی الدنیا․ (مسلم)
جو لوگ آدمیوں کو دنیا میں عذاب دیتے اور ستاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دے گا۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
الراحمون یرحمہم الرحمن، ارحموا من فی الأرض یرحمکم من فی السماء․ (ترمذی وابوداود)
جو لوگ رحم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے۔ تم زمین کے بسنے والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
ایک جگہ ارشاد ہے:
خدا تعالیٰ ان پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
مخلوق خداوند کریم کی بمنزلہ عیال ہے، تو جو شخص اللہ تعالیٰ کی عیال پر احسان کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں سب سے زیادہ محبوب ہوگا۔
ان روایات صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ خداوند کریم کی تمام مخلوق اور بالخصوص تمام انسانوں کے ساتھ بھلائی اور ان پر رحمت و شفقت اور ان کی بہبودی اور خیر خواہی کرنا ضروری ہے۔
قرآن مجید میں فرمایا جاتا ہے:
اس قوم کی دشمنی جو کہ تم کو مسجد حرام سے روکتی تھی اس کی باعث نہ ہو کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو اور آپس میں ایک دوسرے کے نیک کام اور پرہیزگاری پر مدد کرو اور گناہ اور ظلم پر مدد نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے۔
دوسری آیت میں فرماتے ہیں:
اے ایمان والو! ٹھٹھا اور استہزا نہ کریں ایک قوم دوسری سے، شاید وہ بہتر ہوں ان سے اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے، شاید وہ بہتر ہوں ان سے۔ اور عیب مت لگاؤ ایک دوسرے کو اور نام نہ ڈالو چڑانے کوایک دوسرے کے، برا نام ہے گناہ گاری ایمان کے بعد اور جو کوئی توبہ نہ کرے تو وہی ہے بے انصاف۔(سورہٴ حجرات)
اگلی آیت میں ارشاد ہے:
اے ایمان والو! بچتے رہو بری تہمتیں کرنے سے، یقینا بعض تہمت گناہ ہے۔ اور بھید نہ ٹٹو لو کسی کا اور پیٹھ پیچھے برا نہ کہو ایک دوسرے کو۔ بھلا پسند آتا ہے کسی کو کہ کھائے گوشت اپنے مردہ بھائی کا؟ اس سے تم کو گھن آتی ہے اور ڈرتے رہو اللہ تعالی سے، یقینا اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے مہربان ہے۔ (سورہٴ حجرات)
حقیقی امن قائم ہونا اور جھوٹے پروپیگنڈوں کی جڑ کھودنا
ان اصولوں اور قوانین بین الاقوامی میں بہت سے وہ اصول ذکر کیے گئے ہیں جن سے حقیقی امن اور رفاہ قائم ہوتی ہے اور ان جھوٹے پروپیگنڈوں اور ناشائستہ کارروائیوں کی جڑ کھدتی ہے، جنہوں نے انسانی دنیا کو ہلاکت کے گھاٹ تک پہنچا دیا ہے۔ ہم نے اسلام کے اصول اور قوانین میں سے بطور مشتے نمونہ ازخروارے چند اصول اس مختصر وقت میں پیش کیے ہیں، قرآن، حدیث اور فقہ ان سے بھرا ہوا ہے، ہم کو ان کا استیعاب یہاں منظور نہیں ہے، اس لیے کہ اس مختصر وقت میں ہم کو اور بھی دوسرے اہم امور پیش کرنے ہیں۔ ان اصولوں نے صاف طور پر یہ بھی روشن کر دیا ہے کہ کوئی امیر اور سلطان نہ مطلق العنان ہے اور نہ صرف اپنے خاندان یا کسی پارٹی کا نمائندہ ہے اور نہ کسی استبدادی آمریت کا مالک ہے، بلکہ وہ خداوند کریم کا نائب اور خدائی قانون کو نافذ کرنے والا حاکم ہے اور اس کے تحت جواب دہ اور مسئول ہے۔
کہہ دو: اے اللہ، مالک سلطنت کے! تو سلطنت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور سلطنت چھین لیتا ہے جس سے چاہتا ہے اور عزت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ذلیل کرتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ تیرے ہاتھوں میں سب خوبی ہے، تو ہر چیز پر قادر ہے۔
نظامِ خداوندی سے بغاوت کرنے والوں کے ساتھ سلوک
اور اس پر فرض اور لازم ہے کہ تمام رعایا کی خبر گیری اور بہبودی کا خیال رکھے۔ اگر کسی قسم کی کوتاہی اس میں کرے گا تو وہ اور اس کے معاونین سب کے سب مالک حقیقی کے سامنے جواب دہ اور مستحق سزا ہوں گے۔ سب کے ساتھ انصاف کرے اور سب پر رحم اور شفقت کرے، سب کا خیال رکھے۔ کسی کی توہین وتذلیل نہ کرے، ہاں! جو شخص نظامِ خداوندی سے سرتابی اور بغاوت کرے اس کو بغیر تعدی اور بغیر نفسانیت کے جرم کے موافق سزا دے کر، اس کی اور دوسروں کی اصلاح کرے۔ یہی وہ حقیقی اور کارآمد نظام ہے جو دنیائے انسانی کو تمام مذلتوں کے گڑھے سے نکالنے والا اور ہر قسم کی عزت کی چوٹیوں پر پہنچانے والا ہے اور تمام جمہور اور افراد انسانی کی سچی پرورش کا کفیل بھی ہے۔ اسی نظامِ خداوندی کو لے کر تمام انبیاء اور پیغمبر علیہم السلام آئے۔
”مشروع کیا تمہارے واسطے اسی دین کو جو کہ دیا تھا نوح کو اور جو حکم بھیجا ہم نے تیری طرف اور وہ جو کہ دیا ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو“ …الخ۔
دنیائے انسانی کو برباد اور ہلاک کرنے والوں کے بعد انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ اصلاح کرنا
مگر جب لوگوں نے اس میں اپنی نفسانی خواہشوں اور اغراض اور مظالم وتعدی کو داخل کر کے بدل ڈالا اور دنیائے انسانی کو بربادی اور ہلاکت کے گڑھوں میں دھکیل دیا تو دوسرے انبیاء بھیجے گئے۔ خود سر اور باغی قوموں کو برباد کیا گیا اور اطاعت شعار اور ماننے والوں کو عزت اور حکومت بخشی گئی۔ عیسائیوں کے پاس بھی ایسا ہی نظام تھا، انہوں نے جب تک اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھا، ان کا بول بالا رہا اور ان کے مخالف ذلیل وخوار رہے۔
”اور رکھوں گا تیرے تابع داروں کو منکروں کے اوپر قیامت کے دن تک“۔
مگر جب انہوں نے اس کو چھوڑ دیا تو ان سے امن وامان، عزت ورفاہیت کافور ہوکر مسلمانوں کے پاس آگئی۔ جو کہ حقیقتاً حضرت عیسی علیہ السلام اور گذشتہ پیغمبروں کے تابع دار تھے۔ ”اور وہ جو کہتے ہیں اپنے آپ کو نصاریٰ، ان سے بھی لیا تھا ہم نے ان کا عہد، پھر بھول گئے وہ ایک فائدہ لینا اس نصیحت سے جو ان کو تھی، پھر ہم نے لگا دی آپس میں دشمنی اور کینہ قیامت کے دن تک اور آخر بتادے گا اللہ ان کو جو کچھ کرتے تھے“۔
یہ آخری نظام عالم انسانی کے لیے ہر قسم کی بہبودی کا ضامن ہے
ارشاد نبوی (صلی اللہ علی صاحبہ وسلم) ہے:
بنی اسرائیل میں تمام سیاسی نظام انبیاء کے ہاتھ میں تھا، جب ایک پیغمبر وفات پاتا دوسرا پیغمبر اس کی جگہ قائم مقام ہو جاتا تھا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ میرے بعد میرے خلفاء ہوں گے اور بہت سے ہوں گے۔ لوگوں نے پوچھا پھر ہم کو آپ کیا حکم کرتے ہیں؟ فرمایا: ترتیب وار ہر ایک کے عہد کو پورا کرو، تم ان حق کو ادا کرو، ان سے اللہ تعالیٰ رعیت کے حقوق کا سوال کرے گا۔
پس سب سے آخر میں اسی نظام خداوندی کو مکمل طور پر لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آئے، جو کہ نہایت واضح اور صاف طور پر موجود ہے اور وہی عالم انسانی کے لیے ہر قسم کی بہبودی کا (خواہ روحانی ہو یا مادی، اخروی ہو یا د نیوی۔ شخصی ہو یا اجتماعی، سیاسی ہو یا اقصادی، بین الاقوامی ہو یا ایک ہی قوم کا) کفیل اور ضامن ہے۔