اسلامی معاشرے کا احترام کیا جائے

idara letterhead universal2c

اسلامی معاشرے کا احترام کیا جائے

استاذ المحدثین حضرت مولانا سلیم الله خان

نما ز فرض ہے،مسلمان کی پہچان اور اسلام کا رکن ِاعظم ہے۔ مگر نماز کے اوقات میں بازار، کچہری ، دفتر ، گھر اور دوسرے مقامات میں کاروبار اوردوسرے مشاغل کا سلسلہ بلا کسی وقفے کے جاری رہتا ہے، یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ نماز کا وقت آیا ہے یا نہیں، اگر چہ مسجدیں بھی بھری ہوئی ہیں، دفتر میں چار سو آدمی کام کرتے ہیں، ان میں سے ستر یا اسی نماز کے لیے آگئے تو دفتر کی مسجد بھی بھر جاتی ہے اور اس منظر سے ہم خوش بھی ہوتے ہیں، لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ400 مسلمانوں میں سے70 یا80 نے نماز پڑھی ہے اور تین سو تیس یا تین سو بیس نماز کے تارک ہیں۔ یہی صورتِ حال بازار اور کچہری اور محلوں کی ہے۔ادھر حلال اور حرام کی تمیز اٹھتی چلی جارہی ہے ، ہر شخص کو یہ فکر ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت کمائے اور راتوں رات لکھ پتی بن جائے۔ نہ رشوت میں برائی رہی ، نہ لوٹ کھسوٹ میں، نہ مکر و فریب عیب رہا، نہ چوری اور ڈاکہ۔معاشرے کے تمام طبقات کسی نہ کسی شکل میں ان کاموں میں ملوث ہیں اور دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔بے پردگی ،بے حیائی اس قدر عام ہوگئی ہے کہ نئی پود جو اسکولوں اور کالجوں میں پروان چڑھ رہی ہے وہ تو پردے کے نام تک سے الرجک ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسری عام مستورات نے بھی برقعہ اتار پھینکا ہے یا نقاب الٹ دی ہے۔اسی طرح دوسرے اسلامی احکام کا مذاق اڑانے اور ان کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کرنے پر بھی ان کو اب کوئی تکلّف نہیں ہوتا۔ پچھلے دنوں دِیت اور شہادت کے مسائل میں آپ نے اسلام آباد اور لاہور میں خواتین کا احکامِ شریعت کے خلاف مظاہروں کی شکل میں باغیانہ طرزِ عمل دیکھ ہی لیا اور اب تو یہ روز مرہ جیسی بات ہوگئی ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ، خواہ عوامی ہو یا سرکاری ، ابتری ، بد نظمی ، فرض نا شناسی اور لوٹ کھسوٹ کا بری طرح شکار ہے اور شرافت ، دیانت ، امانت اور ایمان داری سے محروم کردیا گیا ہے۔ یہ اس لیے کہ غیر اسلامی قدروں پر ہم اعتماد کرنے لگے ہیں اور اسلامی شعائر اور احکامِ خداوندی سے ہم نے انحراف کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ جس کے نتیجے میں امن و سکون بھی برباد ہو کر رہ گیا اور ترقی کے بجائے روز بروز ہم پستیوں کے گہرے گڑھوں میں دھکیلے جارہے ہیں۔ نہ ہماری سرحدیں محفوظ ہیں، نہ ہمارا دشمن ہم سے مرعوب ہے اور اندرونِ خانہ اتحاد و اتفاق کے بجائے نسلی ، لسانی ، گروہی اور طبقاتی جنگ زور و شور سے جاری ہے اور ملک کی چولیں تک ہل رہی ہیں۔حکمران طبقہ عیش کررہا ہے ، وہ سب کچھ جاننے اور دیکھنے کے باوجودٹس سے مس نہیں ہوتا۔ دو چار بیان داغ دیے اور پبلک(عوام) کو بے وقوف بنادیا اور پھر واپس اپنے محلات میں دادِ عیش دینے لگا یا غیر ملکی دوروں میں نشاط و عشرت کی نِت نئی صورتوں سے مستفید ہونے کے لیے بیرون ملک گھومنے نکل گئے۔

سیاسی جماعتیں اپنا وقار بہت پہلے گنوا بیٹھی ہیں ۔ نہ ان کو کوئی گھاس ڈالتا ہے، نہ وہ خود اتنی جرأت رکھتی ہیں کہ پبلک میں آکر ملک و ملت کے سدھار کی موٴثر تدابیر استعمال کریں۔ انہیں اگر کسی چیز سے دلچسپی ہے تو وہ اقتدار سے ہے۔ ان کی تمام تر کوشش کرسی اقتدار کے حصول کے لیے وقف ہے #
            تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم ؟