ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
حُرِّمَتْ عَلَیْْکُمُ الْمَیْْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَا أُہِلَّ لِغَیْْرِ اللّہِ بِہِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّیَةُ وَالنَّطِیْحَةُ وَمَا أَکَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَکَّیْْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُواْ بِالأَزْلاَمِ ذَلِکُمْ فِسْقٌ الْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ مِن دِیْنِکُمْ فَلاَ تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ فَإِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ3 یَسْأَلُونَکَ مَاذَا أُحِلَّ لَہُمْ قُلْ أُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُونَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّہُ فَکُلُواْ مِمَّا أَمْسَکْنَ عَلَیْْکُمْ وَاذْکُرُواْ اسْمَ اللّہِ عَلَیْْہِ وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ4 الْیَوْمَ أُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ إِذَا آتَیْْتُمُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیْ أَخْدَانٍ وَمَن یَکْفُرْ بِالإِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ5
حرام ہوا تم پر مردہ جانور اور لہو اور گوشت سُور کا اور جس جانور پر نام پکارا جائے اللہ کے سوا کسی اور کا اور جو مرگیا ہو گلا گھونٹنے سے یا چوٹ سے یا اونچے سے گر کر یا سینگ مارنے سے اور جس کو کھایا ہو درندہ نے، مگر جس کو تم نے ذبح کرلیا اور حرام ہے جو ذبح ہوا کسی تھان پر اور یہ کہ تقسیم کرو جوئے کے تیروں سے، یہ گناہ کا کام ہے، آج ناامید ہوگئے کافر تمہارے دین سے، سو ان سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو، آج میں پورا کرچکا تمہارے لیے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین، پھر جو کوئی لاچار ہوجائے بھوک میں، لیکن گناہ پر مائل نہ ہو تو اللہ بخشنے والامہربان ہے، تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا چیز ان کے لیے حلال ہے، کہہ دے! تم کو حلال ہیں ستھری چیزیں اور جو سدھاوٴ شکاری جانور شکار پر دوڑانے کو کہ ان کو سکھاتے ہو اس میں سے جو اللہ نے تم کو سکھایا ہے، سو کھاوٴ اس میں سے جو پکڑ رکھیں تمہارے واسطے اور اللہ کا نام لو اس پر اور ڈرتے رہو اللہ سے، بے شک اللہ جلد لینے والا ہے حساب، آج حلال ہوئیں تم کو صاف ستھری چیزیں اور اہل کتاب کا کھانا تم کو حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے اور حلال ہیں تم کو پاک دامن عورتیں مسلمان اور پاک دامن عورتیں ان میں سے جن کو دی گئی کتاب تم سے پہلے جب دو ان کو مہر ان کے قید میں لانے کو، نہ مستی نکالنے کو اور نہ چھپی آشنائی کرنے کو اور جو منکر ہوا ایمان سے تو ضائع ہوئی محنت اس کی اور آخرت میں وہ ٹوٹے والوں میں ہے۔
حلال جانور کے حرام ہونے کی مختلف صورتیں
آیت کریمہ میں بعض جانوروں کی حرمت کا اعلان کیا گیا ہے۔ حلت وحرمت کے معیار کی تفصیل سابقہ صفحات میں گزر چکی ہے۔
ان آیات میں طبعی موت یعنی بلا ذبح شرعی مرنے والے حلال جانوروں کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔ المیتة جو خود طبعی موت مر جائے۔ المنخنقة جسے گلا گھونٹ کر مارا گیا ہو۔ الموقوذة جو کسی لاٹھی، پتھر وغیرہ کی مار سے مر جائے۔ المتردیة جو اونچی جگہ یا ویسے ہی کسی جگہ سے گر کر چوٹ لگنے کی وجہ سے مر جائے۔ النطیحة جو جانور باہمی لڑائی میں ایک دوسرے کی سینگ کے ٹکر سے مر جائے۔ ایسے تمام حلال جانوروں کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو جانور بھی شریعت کے حکم کے مطابق ذبح نہیں کیا جائے گا وہ حرام ہے۔
ذبح شرعی کے حقیقت
دنیا کے تمام مذاہب میں مختلف جان دار اشیا کو بے روح کر کے انہیں غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، البتہ ان کو بے روح کرنے کے طریقے مختلف رہے ہیں۔
ان میں اہل کتاب یعنی اسلام اور یہودیت ونصرانیت میں جانور کو حلال کرنے اور بے روح کرنے کا طریقہ سب سے مختلف ہے۔ اگر اس مخصوص طریقہ سے جانور کو حلال نہ کیا جائے گا تو وہ جانور حرام ہوجائے گا، اسے کھانا حرام ہوگا۔
اسلام کے طریقہ ذبح پر کئی سوال اٹھائے جاتے ہیں، مثلاً:
1.. جس جانور کو اللہ تعالیٰ نے موت دی اور وہ طبعی موت سے دو چار ہوا تو حرام ٹھہرا اور جس کو آپ نے اپنے ہاتھوں سے مخصوص طریقہ سے ذبح کردیا وہ حلال ٹھہرا، کیوں؟
2.. ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اسلامی طریقہ میں ذبح ہونے والے جانور کو اذیت زیادہ ہوتی ہے اور یہ ظالمانہ طریقہ ہے۔ اگر جانور کے رگوں سے خون باہر نکالنا مقصود ہے تو وہ کسی بھی طریقے سے نکالا جاسکتا ہے۔ آخر ذبح کرنے کا مخصوص طریقہ ہی کیوں؟ اسی طرح مختلف سطحی قسم کے اعتراضات کیے جاتے ہیں۔
جانوروں کی حلت وحرمت اور ان کو مخصوص طریقہ پر ذبح کرنے سے متعلق بنیادی طور یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسان وحیوان کا خالق ومالک اللہ تعالی ہے، اسے اپنی مخلوق پر تصرف کرنے، انہیں کسی حکم کا پابند بنانے پر پورا اختیار اور حق حاصل ہے اور احکام الٰہی دو طرح کے ہیں 1احکام معلول بالعلة۔ یعنی جن کی علت منصوص ہو، جب وہ علت پائی جائے گی حکم بھی پایا جائے گا، اگر علت نہیں پائی جائے گی تو حکم بھی ساقط ہوجائے گا۔ 2 جو احکام بغیر علت کے بیان کیے ہوں، ان احکام کو تَعَبُّدی کہتے ہیں، یعنی اس میں کوئی عقلی وجہ بیان نہیں کی گئی، اس کی علت وحکمت اور مصلحت سے اللہ تعالی ہی واقف ہے۔ بندے کو یہ حکم بندگی کے لیے دیا جارہا ہے، وہ اسے محض اپنے پرور دگار کا حکم سمجھ کر اسے دل وجان سے تسلیم کرلے۔
اس تمہید کے بعد جاننا چاہیے کہ کون سا جانور حلال ہے، کون سا حرام ہے، حلال جانور کس طریقے سے ذبح ہوگا تو حلال ہے، وگر نہ حرام ہے، یہ سارے امور تعبدی ہیں، ان میں اپنی عقل لڑانے اور علتیں بیان کرنے کی حاجت نہیں ہے۔ پس پروردگار کا حکم ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔ یہی مومن کی شان ہے۔
کیا جانوروں کو ذبح کرنا ظلم ہے؟
ہندو مت اور بدھ مت سبزی خور مذاہب کہلاتے ہیں، ان کے خیال میں معصوم جانوروں کو اپنی خواہشات کے لیے ذبح کرنا ظلم اور جذبہ رحم کے خلاف ہے۔ نیز گوشت خوری جذبہ رحم کو ختم کرتی ہے، سخت مزاجی کو پروان چڑھاتی ہے۔
اس اعتراض کے جواب میں حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی a نے ”تحفہ لحمیہ“ کے نام سے ایک مختصر رسالہ تالیف فرمایا تھا۔ اس رسالے سے چند بنیادی باتیں اپنے الفاظ میں اختصار کے ساتھ نقل کی جاتی ہیں۔
پہلا جواب: (اللہ تعالیٰ کو اپنے مملوک پر تصرف کا حق حاصل ہے) اللہ تعالیٰ تمام کائنات کے خالق و مالک ہیں۔
کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مملوکہ ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کو اپنی مملوکہ اشیاء پر مکمل تصرف کا حق ہے۔ دنیا میں انسان کسی چیز کا مجازی مالک بن کر اس پر تصرف کا حق رکھتا ہے اور کوئی اس کے تصرف کو ظلم نہیں کہتا، بلکہ ہر ایک یہی کہتا ہے اس کی چیز ہے، جو چاہے وہ کرے، اس کی مرضی۔ اگر مجازی مالک کے تصرف پر اعتراض درست نہیں سمجھا جاتا تو پھر مالک حقیقی کے تصرف پر اعتراض اور اسے ظلم کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ انسان، حیوان، نباتات، جمادات سب اس کی مخلوق ہے۔ انسان کو اشرف المخلوق بنا کر مختلف حیوان کو ذبح کر کے کھانے کی اجازت دی ہے، اس کا یہ تصرّف حق اور درست ہے۔
دوسرا جواب: ادنی اعلیٰ کے لیے قربان ہوتا ہے۔
یہ دنیا کی ریت ہے، ادنی اعلیٰ کے لیے قربان ہوتا چلا آیا ہے، کوئی بھی اس کو غلط نہیں کہتا۔ شیر اور چیتا کو زندہ رہنے کے لیے گوشت چاہیے وہ اپنی بقا کے لیے ادنی کمزور کو شکار کرتا ہے۔ اس کے شکار کر کے کھانے کو کوئی ظلم نہیں کہتا، بلکہ یہی لوگ جو جانوروں کو اللہ کے نام کے ساتھ ذبح کرنے کو ظلم قرار دیتے ہیں اپنے ممالک کے چڑیا گھروں میں ایسے درندوں کو پال کر، خود اپنے ہاتھوں سے دوسرے جانوروں کو قتل کر کے، ان کے لیے غذا فراہم کرتے ہیں، شیر وچیتا ہرن وہاتھی کا شکار کرتے ہیں، کتا بلی پر لپکتا ہے اور بلی مرغیوں کا شکار کرتی ہے، سمندر میں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو اپنی غذا بنالیتی ہیں، اسی طرح انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کے لیے ادنی جانور جن کے ذبح کی اجازت اللہ تعالیٰ نے دی ہے وہ بطور خدمت اشرف المخلوقات کے لیے قربان ہوجاتے ہیں۔ اس میں اعتراض کیوں کر پیدا ہوا؟
تیسرا جواب: طبی اعتبار سے گوشت مفید غذا ہے۔
انسانی جسم کے لیے گوشت بطور غذا بہت مفید ہے ۔ ہر مذہب ونسل کے تمام حاذق أطبّا کا اس پر اتفاق ہے۔ اس لیے ہر مذہب ونسل میں گوشت کھایا جاتا ہے، بلکہ ہندوستانی مذاہب جو جانوروں کو ذبح کر کے ان کے گوشت کے استعمال کو ظلم قرار دیتے ہیں وہ خود بھینس، بکری، مچھلی ، جھینگا اور دیگر جانوروں کا گوشت بلا تکلف استعمال کرتے ہیں۔
چوتھا الزامی جواب: گائے کا ذبح کرنے کو ناجائز سمجھنا عقلا غلط ہے۔ ہندو فرقہ پرست تنظیموں کے مطالبے پر ہندوستان میں قانونی طور پر گائے ذبح کرنے کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ اوّلا ان فرقہ پرستوں نے گوشت خوری کو ظلم قرار دے کر مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کیا، مگر خود بھینس کا گوشت، مرغی، بکری، مچھلی، جھینگا کا گوشت استعمال کرتے ہیں، اس لیے الزام سے بچنے کے لیے گائے کے تحفظ کا نعرہ بلند کیا اور اس کی وجہ یہ بتلائی کہ یہ دودھ دیتی ہے، اگر یہی وجہ ہے تو سب سے زیادہ دودھ بھینس دیتی ہے، مگر سب سے زیادہ بھینس کا گوشت ہندوستانی مذاہب کے پیروکار استعمال کرتے ہیں، بھینس کے تحفظ کا نعرہ بھی بلند کرنا چاہیے؟
جہاں تک رحم دلی اور سخت دلی کی بات ہے اس کا تعلق گوشت کھانے سے نہیں ہے۔ حضرت عیسی u اور گوتم بدھ کو رحمت وشفقت کا نمونہ سمجھا جاتا ہے، مگر وہ گوشت خور تھے۔ ہٹلر جو انسانی تاریخ میں ظلم اور تشددکا استعارہ بن چکا ہے وہ سبزی خور تھا۔ ہندو فرقہ پرست سبزی خور اپنے مخالف فرقہ کے لوگوں پر جو ”ہم دردی اور شفقت“ ظاہر کرتے رہتے ہیں اسے تو دنیا جانتی ہی ہے۔ عیاں راچہ بیاں
ہندو مذہب میں گوشت خوری
دنیا کے تمام مذاہب میں گوشت خوری کی اجازت ہے۔ ہندوستانی مذاہب میں بھی اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو صرف جین مذہب (جین مت) (جین سنسکرت کے ایک لفظ جن سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے فاتح، جین مت کے بھکشووٴں میں جذبات اور ضبط نفس کے درمیان جو معرکہ گرم رہتا ہے اس پر قابو پانے کی طرف اشارہ ہے۔ جین مت ہندوستانی مذہب ہے اور اسے دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ایک شرکیہ مذہب ہے اور تمام ذی روح اور ذی حیات اجسام کے بارے میں اہنسا (عدم تشدد) کی تعلیم دیتا ہے، ان کے عقیدے کے مطابق عدم تشدد اور ضبط نفس کے ذریعے موکش (نجات) حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس وقت یہ دو بڑے فرقوں میں منقسم ہے۔ شویتامبر اور دگمبر۔) اس میں گوشت کی ممانعت ہے۔ بدھ مذہب میں گوشت کھایا جاتا تھا۔ بعد میں اسے اہنسا (نظریہ عدم تشدد) کا تقاضا سمجھ کر چھوڑ دیا گیا۔ ہندوٴوں میں گوشت خوری کی ممانعت نہیں ہے، مگر ان میں یہ ممانعت اپنی تاریخ اور مذہب کی ناواقفیت سے پھیلی ہے اور مسلمانوں سے تعصب نے اسے مزید پختہ کردیا ہے، وگر نہ حقیقت یہ ہے کہ ویدوں میں جانور کے کھانے پکانے اور قربانی کرنے کا تذکرہ موجود ہے، چناں ”رگ وید“ میں ہے:
”اے اِندر! تمہارے لیے پسان اور وشنو ایک سو بھینسیں پکائیں“۔(رگ وید: 6/1711)
یجروید میں گھوڑے، سانڈ، بیل، بانجھ گایوں اور بھینسوں کو دیوتا کی نذر کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ (یجروید، ادھیائے: 20،78)
منوجی نے مختلف مواقع پر نہ صرف گوشت کھانے کی اجازت دی ہے، بلکہ اس کی ترغیب بھی دی ہے، گوشت کھانے سے انکار کرنے والے کو اگلے جنم میں سزا کا مستحق قرار دیا ہے۔ چناں چہ منوجی لکھتے ہیں: ”گوشت خور روزانہ شکار کرتا ہے اور گوشت کھاتا ہے اور یہ کوئی گناہ نہیں، اس لیے کہ کھانے والے اور کھائے جانے والے دونوں کو خالق نے (اسی مقصد کے لیے) پیدا کیا ہے“۔ (منو، باب: 5، اشلوک: 65)
یہ ایک شخص جو گوشت خوری سے انکار کرتا ہے مرنے کے بعد اکیس جنم تک جانور کے روپ میں رہتا ہے۔ (منو، باب: 5، اشلوک: 65)
منوسمرتی میں کہا گیا ہے:
”مچھلی کے گوشت سے دو ماہ تک، ہرن کے گوشت سے تین ماہ تک، بھیڑیے کے گوشت سے چار ماہ تک اور پرند جانور کے گوشت سے پانچ مہینے تک پتر آسودہ رہتے ہیں“۔ ( منوسمرتی، ادھیائے: 3/267)
مہا بھارت میں بدھشٹر اور بھیشم کا مکالمہ اس طرح نقل کیا گیا ہے:
”بدہشٹر نے کہا : اے مہاشکتی شالی! مجھے بتا وہ کیا چیز ہے جسے اگر پرکھوں کی روحوں کو بھینٹ کروں تو وہ کبھی ختم نہ ہو؟ وہ کیا بھینٹ ہے جو ہمیشہ باقی رہ جائے؟ وہ کیا ہے جو لا فانی ہوجائے؟ بھیشم نے کہا: میری بات سن! اے یدھشٹر! وہ نذر کیا ہیں جو کوئی شخص شردھا میں چڑھائے اور جو شردھا کے لیے اچھی ہوں اور وہ کیا پھل ہیں جو ہر ایک کے ساتھ جوڑے جائیں، تل اور چاول اور جو اور ماش اور پانی اور جڑیں اور پھل۔ اگر انہیں شردھا میں نذر کیا جائے تو اے بادشاہ! تیرے پرکھوں کی آتمائیں دو مہینے تک خوش رہیں گی (بھیڑ کے) گوشت کی قربانی انہیں تین مہینوں تک اور خرگوش کی قربانی چار مہینوں تک خوش رکھے گی، بکری کے گوشت کی قربانی سے وہ پانچ مہینوں تک، سور کے گوشت سے چھے مہینوں تک خوش رہیں گے اور پرندوں کا گوشت انہیں سات مہینوں تک خوش رکھے گا، ایک ہرن کا گوشت جسے پریشاتا کہتے ہیں اور گوایا کا گوشت دس مہینے تک اور بھینس کے گوشت کی قربانی انہیں گیارہ مہینے تک خوش رکھے گی، یہ کہا کہ شردھا پر دی کی گئی گائے کے گوشت کی قربانی ایک سال تک باقی رہتی ہے، قربانی کے گوشت کی بھینٹ ایک سال تک باقی رہتی ہے، قربانی کے گوشت کے ساتھ اتنا گھی ملایا جائے کہ وہ تیرہ پرکھوں کی آتماوٴں کو بارہ برس تک خوش رکھ سکے“۔ (مہا بھارت، انوساشن بھیروا، تیرہویں کتاب، ادھیائے:88)
ذبح شرعی کی تعریف
شریعت مطہرہ میں ذبح کے احکام دو طرح کے ہیں:
(1) ذبح کرنے والے سے متعلق
پہلی شرط: ذبح کرنے والے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ عاقل ، بالغ، مسلمان یا وہ کتابی (یہودی، نصرانی) ہو جو واقعی آسمانی کتاب پر ایمان رکھتا ہو، وہ دہریہ اور زنادقہ، جو صرف قومی نسبت، یہودیت ومسیحیت کی طرف کرتے ہیں ان کا ذبیحہ حلال نہیں ہو۔ اگر بچہ ذبح کرنے والا سمجھ دار ہے، ذبح کی حقیقت سے واقف ہے تو اس کا ذبیحہ بھی درست ہے۔ نیز ذابح مُحرِمْ نہ ہو اور حرم سے باہر ہو۔
دوسری شرط: ذبح کرنے والا ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لے۔ ذبح کے وقت اللہ کانام لینے کے ثبوت پر کئی آیات ہیں:۔
1.. ﴿فکُلُوا مِمَّا ذُکِر اسمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ﴾(الانعام:118)
(سو تم کھاوٴ اس جانور میں سے جس پر نام لیا گیا ہے اللہ)۔
2.. ﴿وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ﴾(الانعام: 121)
(اور اس میں سے نہ کھاوٴ جس پر نام نہیں لیا گیا اللہ کا)۔
3.. ﴿وَمَا لَکُمْ أَلاَّ تَأْکُلُواْ مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ﴾(الانعام:119)
(اور کیا سبب کہ تم نہیں کھاتے اس جانور میں سے کہ جس پر نام لیا گیا ہے اللہ کا) ۔
4.. ﴿وَلِکُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیْمَةِ الْأَنْعَامِ﴾(حج:34)
(اور ہر امت کے واسطے ہم نے مقرر کر دی ہے قربانی کہ یاد کریں اللہ کے نام ذبح پر چوپایوں کے جو ان کو اللہ دیے)۔(جاری ہے)