الله تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو اخوت او ربھائی چارہ کے رشتہ سے باندھ دیا ہے، مسلمان دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہو، مغرب میں یا مشرق میں، شمال میں یا جنوب میں، گورا ہو یا کالا، مال دار ہو یا غریب، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو یا معمولی مزدور اور بڑا ہو یا چھوٹا، وہ ایک دوسرے کا بھائی ہے، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تمام اہل ِ ایمان بھائی بھائی ہیں:﴿إِنَّمَا لْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾( الحجرات:10)
یہ ایمانی رشتہ رنگ ونسل، علاقہ ووطن، زبان او رخون کے رشتوں سے بڑھ کر ہے، یہ رشتہ ہمیں ایک آفاقی او رعالم گیر خاندان کا رکن بنا دیتا ہے، یہ ہمیں رشتہ وتعلق کے محدود دائرے سے نکال کر عالم گیر وسعت میں لے آتا ہے۔
اسی رشتہ نے حبش کے بلال اور روم کے صہیب ، فارس کے سلمان، اسرائیلی نسل کے عبدالله بن سلام، بنو ہاشم کے علی وعباس اوردوسرے عرب کے ابوبکر وعمر وغیرہ کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا تھا، یہ ایک دوسرے پر خون چھڑکنے والے اور باہم خود مٹ کر دوسروں کو بچانے والے لوگ تھے، یہ اسلامی اُخوت ان کے ذہن وفکر اور دل ودماغ پر اس قدر حاوی تھی کہ یہ خود بھوکے رہ کر، دوسروں کو کھلانے اور خود پھٹے پرانے کپڑے پہن کر، دوسروں کو اچھے کپڑے پہنانے میں خوشی محسوس کرتے تھے ﴿َیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَةٌ﴾․(الحشر:9)
۔
مسلمانوں کے لیے ایمان کے بعد اس اخوت ایمانی کو قائم رکھنا سب سے اہم ضرورت ہے، اس لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہمیشہ اس رشتہ کو تازہ فرمانے کی سعی کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ تو ایک مسلمان دوسرے پر ظلم کرسکتا ہے، نہ اسے چھوڑ سکتا ہے، جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت میں کام آتا ہے، الله اس کی ضرورت میں کام آتے ہیں، جو کسی مسلمان سے مصیبت کو دور کرتا ہے، الله قیامت کے دن اس کی مصیبت کو دور فرماتے ہیں اور جو کسی مسلمان کی عیب پوشی کرتا ہے، قیامت کے دن الله تعالیٰ اس کے عیب کو چھپائیں گے۔ (مسلم ، حدیث نمبر:2580) اس ارشاد میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسلامی اخوت کے پانچ تقاضوں کو بیان فرمایا ہے، اول یہ کہ وہ ایک دوسرے پر ظلم نہ کرے، دوسرے یہ ایک دوسرے کے ناصر ومدد گارہوں اور اپنے بھائی کو حالات کے رحم وکرم پر نہ چھوڑ دے، تیسرے اپنے بھائی کی ضرورت میں کام آئے، چوتھے اس پر کوئی مصیبت آئی ہو تو اُسے دور کرنے میں معاون ومدد گار بنے، پانچویں اگر کسی مسلمان سے غلطی یا گناہ ہو جائے تو اس پر پردہ رکھنے کی کوشش کرے اور اُسے رسوائی سے بچائے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس اُمت کے باہمی تعلق کو بڑی مؤثر اور معنی خیز مثالوں سے سمجھایا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ باہمی محبت اور تعلق میں اہل ِ ایمان کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ اگر ایک عضو بیمار ہو جائے، تو پورا جسم بے خوابی او ربخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ( بخاری، حدیث نمبر6011، مسلم، حدیث نمبر2576) اس تمثیل کی معنویت پر غور کیجیے، جسم کے تمام اعضاء یکساں اہمیت اور حیثیت کے حامل نہیں ہوتے، دماغ پورے جسم کا بادشاہ ہے، اس کیچشم وابرو کے اشارہ پر جسم کا ہر ہرانگ کام کرتا ہے، اور ہر صلاحیت متحرک ہوتی ہے، قلب پورے بدن کے لیے پاور ہاؤس ہے اگر یہ کسی حصے کو خون کی سپلائی چھوڑ دے، تو لمحوں میں اس حصہ کی موت واقعہ ہو جائے گی، پھر دوسرے اعضاء میں بھی کچھ زیادہ اہم ہیں اور کچھ کم، لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ اگر انگلی کو تکلیف ہو تو دل ودماغ یہ سوچے کہ ایک حقیر عضو کے لیے ہم کویوں مبتلائے رنج ومحن ہوں اور پاؤں یہ نہیں سوچتا کہ تکلیف انگلی کی ہے، ہم کیوں دواخانہ کا چکر لگائیں؟ یہاں تک کہ اگر ناخن بھی ضرورت سے زیادہ کٹ جائے تو پورا جسم اس کی کسک کو محسوس کرتاہے، حد یہ ہے کہ بال جو ہیں ہی کاٹنے کے لیے، جس کے کٹنے سے جسم کو کوئی گزند نہیں پہنچتا، وہ بھی انسان کو محبوب ہوتے ہیں، تو جیسے جسم کا ہر عضو، دوسرے کے غم میں شریک ہے، نہ اس میں رنگ کا فرق مانع ہے، نہ کسی عضو کا کم اہم ہونا رکاوٹ ہے، اسی طرح پورا ” اسلامی خاندان“ ایک دوسرے کے لیے لائق محبت ہے، کوئی مسلمان غریب ہو، ان پڑھ ہو، کسی اورمسلک کا حامل ہو، کسی دوسری جماعت اور تنظیم سے تعلق رکھتا ہو، کسی اورعلاقہ یا کسی اور ملک کا رہنے والا ہو، محض اس فرق کی وجہ سے اخوت ِ اسلامی کی آگ بجھ جائے اور انسان اپنے بھائی کے لیے محبت کی شبنم بننے کے بجائے نفرت کا شعلہ بن جائے، یہ یقینا ایمان کی کم زوری کی بات ہے، جس شخص کا ایمان جس قدر قوی ہو گا، اسلامی اخوت کا جذبہ اسی قدر اس میں موج زن ہو گا اور حمیت ایمانی جتنی کم ہو گی، تعصبات اور تنگ نظریاں اسی قدر اس کے سینہ کو اپنے لیے پناہ گاہ بنائیں گے۔
رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے اس اسلامی رشتہ کو ایک او رمثال سے سمجھایا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہ پوری امت ایک عمارت کے درجہ میں ہے، جیسے عمارت کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے، اسی طرح اس قصر اسلامی کی ہراینٹ دوسرے کے لیے تقویت کا سامان ہے،” المومن للمومن کالبنیان، یشد بعضہ بعضا“․ (مسلم، حدیث نمبر:2585)
یہ مثال بھی بڑی ہی معنی خیز او رچشم کشا ہے، عمارت کے تمام اجزا قوت اور اہمیت کے اعتبار سے ایک درجہ کے نہیں ہوتے، بنیاد کی اہمیت سب سے زیادہ ہے، پھر ستون ہیں، اس کے بعد چھت ہیں، دیواریں اور فرش بھی عمارت کا حصہ ہیں، عمارت کا ایک حصہ وہ ہے جو لوگوں کے سر پر سایہ فگن ہے اور ایک حصہ وہ ہے جو اس کے قدموں کے نیچے روندا جاتا ہے، بنیاد کے پتھرنظر نہیں آتے اور زیبائش اور آرائش کے لیے کھڑے کیے گئے گنبد او رمینار دُور سے دعوت ِ نظارہ دیتے ہیں، بنیاد اپنے آپ کو نیچے دبا کر دوسروں کو سربلند کرتی ہے، یہی حال اس اُمت کے افراد کا ہے، کوئی زیادہ اہم ہے اور کوئی کم اہم، کسی نے ایک کام کو سنبھال رکھا ہے، کسی نے دوسرے کام کو، کسی نے خود کو گمنامی کے غار میں دفن کرکے دوسروں کو سر بلند کرر کھا ہے ، لیکن سب ایک دوسرے کے لیے معاون ومدد گار بھی ہیں اور ضرورت بھی، اگر دیوار کی ایک اینٹ نکال دی جائے، تو پوری دیوار کم زور ہو جاتی ہے، اسی طرح امت کے کسی فرد یا گروہ کو حقیر نہ سمجھنا چاہیے کہ یہ سب ایک دوسرے کے لیے تقویت کا سامان ہیں او رایک دوسرے کی مدد کرنے میں ہی پوری امت کا بقا اور اس کا تحفظ ہے۔
اسلام نے اس رشتہ اُخوت کو اتنا مضبوط او رمستحکم کیا کہ نازک سے نازک وقت میں بھی مسلمان نے اسے یاد رکھا اور انہوں نے دوسروں کو کسی مسلمان گروہ پر ان سے اختلاف کے باوجود، دست درازی کی اجازت نہیں دی، حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت معاویہ رضی الله عنہ میں ایک سے زیادہ جنگیں ہوئی، رومیوں نے اس اختلاف سے فائدہ اٹھانا اور حضرت علی رضی الله عنہ پر، یلغار کرنا چاہا، تو حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے فرمایا کہ اگر تم نے حضرت علی رضی الله عنہ کی طرف ترچھی نگاہ سے بھی دیکھا تو میں تیری آنکھ نکال لوں گا یا یہ کہا کہ علی رضی الله عنہ کی فوج کا پہلا سپاہی میں ہوں گا، عباسیوں کے عہد ِ خلافت میں جب اندلس پر بنو اُمیہ کی حکومت قائم ہوئی، اس وقت بھی عیسائیوں نے بنو امیہ سے تعاون کی پیش کش کی ، لیکن اموی بادشاہ نے اس پیش کش کو مسترد کر دیا۔
صلیبی جنگوں میں شکست کے بعد سے ہی یہود ونصاریٰ نے محسوس کیا کہ جب تک اسلامی اُخوت کے اس جذبہ بیکراں پر تیشہ نہ چلایا جائے، مسلمانوں کو زیر کرنا ممکن نہ ہوگا، چناں چہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس مقصد کے تحت ترکیٴ مرحوم کے ٹکڑے بخرے کیے گئے اور خلافت ِ عثمانیہ کے سقوط کا عظیم سانحہ پیش کیا، اس حقیر کے خیال میں سیاسی اعتبار سے ،رسول الله صلی الله علیہ و سلم کی وفات کے بعد، مسلمانوں کو سب سے بڑا نقصان دو واقعات سے ہوا، ایک حضرت علی رضی الله عنہ کے عہد ِ خلافت میں عراق اور شام میں دو الگ الگ مسلم مملکت کا وجود، کیوں کہ اس وقت تک عالم ِ اسلام کی تقسیم کا کوئی تصور ہی نہیں تھا، اس تقسیم نے بعد کو چل کر، الگ الگ مسلم مملکتوں کے تصور کوتقویت پہنچائی اور دنیا کے مختلف حصوں میں خلافت ِ اسلامی سے آزاد مسلمان مملکتیں قائم ہونے لگیں، خود ہندوستان بھی اس کی ایک مثال ہے، جہاں بعض مسلم سلطنتوں کے اندر خطبہ میں خلیفہ کا نام پڑھا جاتا تھا اور بعض میں نہیں اور جہاں پڑھا جاتا تھا تو ہ بھی برائے نام، خلیفہ سے کوئی حقیقی ربط وتعلق نہیں ہوتا تھا۔
دوسرا حادثہ خلافت ِ عثمانیہ کا سقوط ہے، خلافت ِ عثمانیہ جیسی کچھ بھی ہو، لیکن بہرحال وہ مسلمانوں کی وحدت، اجتماعیت اور مرکزیت کا ایک نشان تھی اور دنیا میں جہاں کہیں مسلمانوں پر کوئی اُفتاد آئے، مسلمانوں کی نگاہ مرکزِ خلافت کی طرف اٹھتی تھی اور یہیں سے اس کی ترجمانی ہوتی تھی، یہ ایک ایسی بنیاد تھی کہ جس کو وسیلہ بنا کر پوری دنیا کے بکھرے ہوئے مسلمانوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کیا جاسکتا تھا، اس حقیقت کو اس دَور کے ناسمجھ عرب او رترک قائدین نے نہیں سمجھا او رمغرب کے اشارہ پر خلافت ختم کر دی گئی، پھر اس اسلامی اُخوت کے جذبہ کو سرد کرنے اور ان کے شیرازہ کو منتشر کرنے کے لیے مغرب نے وطن پرستی کی کاشت لگائی اور اسے خوب آبیار کیا، کیوں کہ یہی وطنی قومیت کا جذبہ اسلامی اُخوت کا بدل بن سکتا تھا، نتیجہ یہ ہواکہ شام، مصر، حجاز ، یمن ، ترکی، عراق اور پورا عالم ِ اسلامی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر رہ گیا اور آج وہ مغرب کے لیے بازیچہ اطفال ہے، اسرائیل قتل عام کرے اور مسلمانوں کی زمین پر غاصبانہ قابض ہو، بوسنیا میں نسل کشی کی جائے، انڈونیشیا اور سوڈان میں مسلمان حکومتوں کے خلاف مرتد عیسائیوں کو ورغلایا جائے اور الجزائر میں ایک منتخب حکومت کو بلا وجہ تخت اقتدار سے تختہٴ دار پر چڑھا دیا جائے، تو یہ دہشت گردی نہیں او رمسلم ممالک کو خود ساختہ الزامات کے ذریعہ دہشت گرد قرار دیا جائے، لیکن الله رے سناٹا! کیا مجال کہ کوئی زبان بھی اس کے خلاف جنبش کرسکے!!
یہ محض اُخوت ِ اسلامی سے محرومی اور حمیت ایمان سے مہجوری کا نتیجہ ہے، اس سے زیادہ بد قسمتی کی کوئی او رکیا بات ہو سکتی ہے کہ لوگ مسلمانوں کے مسائل کو ملکوں او رعلاقوں کی اصطلاحات میں سوچنے لگیں، کہ یہ جغرافیائی تقسیم ہم انسانوں کی تقسیم ہے، نہ کہ خالق ِ انسان کی، یہ جغرافیائی لکیریں کیا ایمانی رشتوں کو بدل دیں گی؟ افسوس کہ مسلمانوں میں بین الاقوامی سطح سے لے کر ملک، ریاست ، ضلع اور شہر کی سطح تک علاقہ پرستی کا مزاج پیدا ہوتا جارہا ہے، جو قومیں دریا کے کناروں کی طرح ایک دوسرے سے نہیں مل سکتی تھیں، وہ تو آج ایک دوسرے سے ہم آغوش ہیں اور جو اُمت جسد واحد بنائی گئی تھی ،اس کا عضو، عضو ایک دوسرے سے اس طرح روٹھا ہوا ہے کہ ایک کی مصیبت دوسرے کو اشک بار نہیں کرتی۔فیا اسفاہ ویا عجباہ!