حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی کا فضلائے جامعہ سے خطاب(جس میں حضرت شیخ الکل مولانا سلیم الله خان صاحب نوّرالله مرقدہ کی زمانہ طالب علمی سے لے کرآخر عمر تک حیات طیبہ کے متعدد پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے اورحضرت شیخ نوّرالله مرقدہ کی علمی، دینی، ملّی اور ہمہ جہت تاریخ ساز خدمات کا تذکرہ فرمایا گیا ہے) اس بیان کو افادہٴ عام کے لیے ماہنامہ الفاروق میں شائع کیا جارہا ہے، تاکہ قارئین”الفاروق“ بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم أما بعد! فأعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحیم
﴿قَدْأَفْلَحَ مَن تَزَکَّیٰ، وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّیٰ، بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا، وَالْآخِرَةُ خَیْرٌ وَأَبْقَیٰ، إِنَّ ہَٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْأُولَیٰ، صُحُفِ إِبْرَاہِیمَ وَمُوسَیٰ ﴾․(سورة الاعلی:19-14)
صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم
دورہ حدیث اور درجہ سابعہ کے طلباء یہاں تشریف فرما ہیں، یہ ادارہ جامعہ فاروقیہ کراچی ہمارے حضرت والد قدس الله تعالیٰ سرہ نے1967ء میں قائم فرمایا اور جب اس ادارے کی بنیاد رکھی گئی تو یہاں ایک بہت چھوٹی سی مسجد تھی ،جو اس وقت ہمارا مسجد کا وضو خانہ ہے، جس میں حوض بھی ہے اور نل والا وضو خانہ بھی ہے، اس مسجد کی گنجائش بس اتنی تھی اور اس کی جو چھت تھی وہ ٹین کی چادریں تھیں او ران میں بھی اتنے سوراخ تھے کہ جب بارش ہوتی تھی تو باہر او راند رمیں کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا تھا۔
حضرت نور الله مرقدہ فاضل دارالعلوم دیوبند تھے اور ممتاز طلباء میں سے تھے، ان کے امتیاز کا ایک چھوٹا سا قصہ میں آپ سے عرض کروں کہ دارالعلوم دیوبند کی جو اس زمانے میں شوریٰ تھی اس شوریٰ میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمة الله علیہ بھی تھے اور اس شوریٰ میں حضرت مولانا محمدمنظور نعمانی رحمة الله علیہ بھی تھے، شوریٰ میں تو کافی حضرات تھے، ان دو کا نام میں نے اس لیے لیا کہ حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمة الله علیہ کا بھی عالمی سطح پر بہت بڑا مرتبہ او رمقام تھا اور دارالعلوم ندوة العلماء کے ناظم تھے اور آپ کی معلومات کے لیے یہ بھی عرض کردوں کہ دارالعلوم ندوة العلماء میں جو سب سے بڑا منصب ہے وہ مہتمم کا نہیں ہے، وہ ناظم کا ہے اور وہ ندوة العلماء کے ناظم تھے۔اور مولانا محمد منظور نعمانی صاحب رحمة الله علیہ ان کے رفیق خاص تھے اوران کی بڑی خدمات میں ”الفرقان“ رسالہ بہت مایہ ناز اوربہت اہم ماہنامہ وہ جاری فرماتے تھے، اس کے علاوہ ان کی تصنیفی خدمات بھی بہت عظیم الشان ہیں، فجر کی نماز کے بعد جو میں حدیث پڑھتا ہوں وہ حضرت مولانا محمد منظور نعمانی صاحب رحمة الله علیہ کی ”معارف الحدیث“ سے ہی پڑھتا ہوں۔
ان کا بھی بڑا مقام اور بڑا نام تھا، تو یہ حضرات شوریٰ میں تھے، یہ واقعہ ہم نے حضرت سے خود سنا ہے او رایک دفعہ نہیں، کئی دفعہ سنا ہے اورحضرت نے اس کو تحریر بھی فرمایا ہے، حضرت فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بقرہ عید کے فوراً بعد کا زمانہ تھا، دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ کا اجلاس ہوا، اجلاس میں حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمة الله علیہ رکن شوریٰ کی حیثیت میں تشریف لائے، ان کا قیام دارالعلوم سے باہر ایک مکان میں تھا، چناں چہ اجلاس ہوا، اجلاس جب مکمل ہو گیا تو آخر میں حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمة الله علیہ نے شوریٰ کے سامنے ایک درخواست پیش کی اور وہ درخواست یہ تھی کہ میرے بھانجے ہیں اور میں انہیں دارالعلوم میں د اخلے کے لیے لایا ہوں، میری درخواست ہے کہ انہیں داخلہ دے دیا جائے۔ اب چوں کہ شوال، ذوالقعدہ گزر چکا تھا اور ذوالحجہ کا بھی اکثر حصہ گزر چکا تھا ،داخلے بند ہوچکے تھے ،اس لیے انہیں ضرورت پیش آئی کہ شوریٰ کے سامنے درخواست پیش کریں۔ چناں چہ شوریٰ نے اس پر غور کیا، اب دیکھیں کہ اداروں کی شوریٰ کتنی طاقت ور ہوتی ہے کہ شوریٰ نے اس درخواست کو رد کر دیا، یہ داخلے کا وقت نہیں، انہوں نے پھر اپنی درخواست دوبارہ دہرائی، تو مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة الله علیہ ، قاری محمد طیب صاحب رحمة الله علیہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب رحمة الله علیہ بانی دارالعلوم دیوبند کے پوتے ہیں اور ان کا زمانہ اہتمام دارالعلوم کے اب تک کی تاریخ میں سب سے زیادہ طویل ہے، پچاس سال سے زیادہ پر محیط ہے، توحضرت قاری صاحب رحمة الله علیہ نے مداخلت کی اور شوریٰ کے حضرات سے کہا کہ بھائی! آپ حضرات اس طرح رد نہ کریں ،مولانا کا بھی خیال کریں اور کوئی ایسی درمیانی راہ نکال لیں جس سے مسئلہ حل ہو جائے، چناں چہ پھر غور کیا گیا اور اس میں درمیانی راہ یہ نکلی کہ باقاعدہ رسمی داخلہ تو نہیں ہو گا، ہاں! یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ مولانا کے بھانجے کو دارالعلوم میں رہنے کی اجازت ہو اور دارالعلوم کے سب سے زیادہ ذی استعداد طالب علم کے کمرے میں ان کو رکھا جائے اور وہ ممتاز طالب علم فرصت کے اوقات میں، مثلاً فجر کے بعد، دوپہر میں ،عصر کے بعد رات کو دیر سے، انہیں اس سال کے اسباق پڑھائے، جو کمی رہ گئی ہے وہ بھی پوری کرے اوراس سال داخلہ تو نہیں ہو گا، داخلہ تو اگلے ہی سال ہو گا، اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ اگلے سال جب داخلے کا امتحان یہ دیں گے تو اس سال جو کتابیں طالب علم سے پڑھی ہوں گی ان کا امتحان دیں گے اور درجے کی ترقی ہوجائے گی اور یہ سال ضائع نہیں ہوگا، چناں چہ اس پر سب کا اتفاق ہو گیا، اب یہ مسئلہ پیش آیا کہ وہ ممتاز طالب علم کون ہے جن کے کمرے میں اس کو رکھا جائے؟ تو پوری شوریٰ اور دارالعلوم کے اساتذہ کا اتفاق حضرت والد صاحب رحمة الله علیہ پر ہو گیا کہ ان کے پاس اس طالب علم کو رکھا جائے۔
چناں چہ انہیں رکھا گیا اور حضرت پر تو طالب علمی ہی کے زمانے سے تدریس کا صرف غلبہ نہیں تھا، تدریس کا جنون تھا، چناں چہ انہوں نے انہیں خوب پڑھایا، اب چوں کہ وہ تو ابوالحسن علی ندوی رحمة الله علیہ کے بھانجے تھے، تو جیسے طلباء فرصت کے زمانے میں، چھٹی کے زمانے میں گھروں کو جاتے ہیں تو وہ بھی گھر گئے اور جاکے انہوں نے اپنے ماموں حضرت مولانا علی میاں رحمة ا لله علیہ کو اپنے اس طالب علم استاد کی کار گزاری سنائی، انہوں نے یہ بھی پڑھا دیا، یہ بھی پڑھا دیا اور مجھے تو بہت فائدہ ہو رہا ہے، تو یہ کارگزاری حضرت والد صاحب رحمة الله علیہ کی اس شاگرد کے ذریعے حضرت مولانا علی میاں رحمة الله علیہ تک مسلسل پہنچتی رہی۔
یہ حضرت والد صاحب کا دورہ حدیث کا سال تھا، سال کا آخر آیا، جیسے آپ حضرات کا اب سال کا آخر آیا ہوا ہے، تو پھر شوریٰ کا اجلاس ہوا اور اس شوریٰ کے اجلاس میں پھر حضرت علی میاں رحمة الله علیہ تشریف لائے اوران کا قیام اسی طرح دارالعلوم سے باہر مکان میں تھا، تو حضرت مولانا علی میاں رحمة الله علیہ نے عصر کی نماز کے بعد ایک قاصد کے ذریعے حضرت والد صاحب کو پیغام بھیجا کہ آپ مجھ سے آکر ملاقات کریں۔
ظاہر ہے کہ حضرت علی میاں رحمة الله علیہ تو شوریٰ کے رکن تھے، بڑے عالم تھے۔ اگر چہ استاد نہیں تھے، لیکن درجے میں تو اساتذہ ہی کے تھے، حضرت والد صاحب رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ میں فوراً ان کے حکم کی تعمیل میں ان کے مکان پر پہنچ گیا او ران کے کمرے میں جب داخل ہوا تو حضرت مولانا علی میاں رحمة الله علیہ، حضرت فرماتے ہیں کہ وہ آدھے بیٹھے، آدھے لیٹے ہوئے تھے، ٹیک لگائے ہوئے تھے، وہ کسی کتاب کا مطالعہ فرمارہے تھے، حضرت تشریف لے گئے تو کتاب ایک طرف رکھ دی اور پہلے تو حضرت والد صاحب کا بہت شکریہ ادا کیا کہ آپ نے میرے بھانجے پر بہت توجہ دی، وہ مسلسل مجھے آپ کے بارے میں بتاتے رہے، اب آپ کا دورہ حدیث کا سال ہے، سال بھی ختم ہو رہا ہے، میری آپ سے ایک درخواست ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ جامعہ ازہر چلے جائیں، حضرت والد ماجد رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ ابھی ان کا یہ جملہ مکمل ہوا تھا او رمیں نے ایک لمحہ سوچے بغیر حضرت سے عرض کیا کہ حضرت! میں تو ہرگز نہیں جاؤں گا۔ تو مولانا علی میاں رحمة الله علیہ حضرت کا یہ جواب سن کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور پوچھا کیا کہا آپ نے؟ حضرت نے فرمایا: کہ میں ہر گز جامعہ ازہر نہیں جاؤں گا، تومولانا علی میاں رحمة الله علیہ نے فرمایا آپ عجیب آدمی ہیں؟! آپ کو معلوم ہے میں کون ہوں، لوگ میری منتیں کرتے ہیں، خوشامدیں کرتے ہیں اور میں کسی کی منت خوشامد قبول کر لیتا ہوں اور اکثر کی رد کر دیتا ہوں او رمیں آپ کو اپنے پاس بلا کر آپ سے یہ کہہ رہا ہوں اور آپ کہتے ہیں ہر گز نہیں جاؤں گا، کیوں کہا آپ نے ایسا؟ تو حضرت فرماتے ہیں پھر میں نے سوچے بغیر فوراً کہا ،اس لیے کہ میرے استاد حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمة الله علیہ نے ہم سے درس گاہ میں یہ عہد لیا ہے کہ جامعہ ازہر گز مت جانا، بس ختم بات۔ ہمارے استاد نے فرما دیا، حضرت مدنی نے فرما دیا، بس ختم، ہم ہر گز نہیں جائیں گے۔ کوئی بھی ہم سے کہے ،ہم نہیں جائیں گے ۔تو مولانا علی میاں رحمة الله علیہ حضرت والد صاحب سے فرمانے لگے: مولوی صاحب! آپ کو پتہ نہیں ہے آپ کی استعداد کیا ہے؟ آپ اگر جامعہ ازہر جائیں گے تو آپ سونے کی چڑیا بن جائیں گے، حضرت فرماتے ہیں کہ میں نے پھر حضرت سے عرض کیا کہ حضرت میں سونے کی چڑیا نہیں بنوں گا ،میں مٹی کی مورتی بن جاؤں گا۔ تو یہاں دو باتیں آپ کے سامنے ہیں، ایک تو یہ کہ اس جامعہ فاروقیہ کی اساس رکھنے والے کوئی معمولی آدمی نہیں تھے، ان کا ایک بڑا مقام تھا اور دوسری بات آپ کو یہ معلوم ہوئی کہ اس دور میں بھی یہ فتنہ جدیدیت کا، مغربیت کا موجود تھا، اگرچہ کہ وہ آج کی طرح سے نہیں تھا، چوں کہ آپ دورہ حدیث کے طلباء ہیں اور موقوف علیہ کے طلباء ہیں اور جو میں نے حضرت والد ماجد سے، جو میرے والد بھی ہیں، میرے استاد اورمربی بھی ہیں، میرے شیخ بھی ہیں، ان سے جو میں نے سنا، میری دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ میں آپ کو ضرور سناؤں، ہمارے حضرت نے فرمایا:
ندوة العلماء میں جو ایک بہت بڑا انقلاب آیا وہ بھی دارالعلوم دیوبند کی برکت سے آیا اور وہ انقلاب آیا حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمة الله علیہ، جو حضرت مولانا علی میاں سے پہلے ندوة العلماء کے ناظم تھے، وہ تھانہ بھون کے چشمے پر آئے، خانقاہ امدادیہ او رحضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله علیہ سے بیعت ہوئے۔
چناں چہ دارالعلوم دیوبند کا فیض ندوہ کی طرف جانا شروع ہوا اور حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمة الله علیہ کے حالات اگر آپ پڑھیں گے تواس کی تفصیلات آپ کے سامنے آئیں گی، پھر ان کے بعد حضرت مولاناابوالحسن علی ندوی رحمة الله علیہ، آپ ان کے احوال پڑھیں کہ وہ رائے پور حضرت مولانا عبدالقادر صاحب رائے پوری رحمة الله علیہ کی خدمت میں مسلسل، مولانا الیاس صاحب رحمة الله علیہ کی خدمت میں مسلسل اور تمام اکابر دارالعلوم دیوبند، جس میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمة الله علیہ، حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمة الله علیہ، ان حضرات سے ان کا بہت خصوصی ربط اورتعلق رہا ،میں عرض کر رہا تھا کہ حضرت والد ماجد رحمة الله علیہ جو آپ کے دادا استاد ہیں، حضرت مولانا محمد انور صاحب دامت برکاتہم سے آپ نے پڑھا تو ان کے استاد بھی حضرت والد صاحب ہیں ، حضرت مولانا محمدیوسف افشانی دامت برکاتہم سے آپ نے پڑھا، ان کے استاد بھی حضرت والد صاحب ہیں، حضرت مولانا عبدالرزاق صاحب دامت برکاتہم سے آپ نے پڑھا ان کے استاد بھی حضرت والد صاحب ۔جامعہ کے جتنے اساتذہٴ حدیث ہیں، وہ حضرت نورالله مرقدہ کے شاگرد ہیں، تو حضرت آپ کے دادا استاد ہیں ۔اور میں آپ کو وہ نام بھی بتا دیتا ہوں، حضرت علی میاں کے وہ بھانجے جو حضرت کو دیے گئے تھے اور جن کو حضرت نے اپنے کمرے میں رکھ کر پڑھایا ان کا نام ہے مولانا محمد رابع ندوی رحمة الله علیہ، جو پھر دارالعلوم ندوة العلماء کے ناظم بنے اور ابھی چند برس پہلے حضرت والد صاحب کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد ان کا انتقال ہوا۔
یہ جو جامعہ فاروقیہ ہے یہ ایک ایسی شخصیت نے قائم فرمایا جو آخری درجے کے نظریاتی آدمی تھے اور ان پر مدرسہ طاری تھا۔
ان پہ مدرسہ ایسا طاری تھا کہ بس وہ چاہتے تھے کہ سب مدرسے میں آجائیں، کوئی مدرسے سے دور نہ رہے، چناں چہ یہاں کے اساتذہ سے آپ نے سنا ہے کہ جامعہ فاروقیہ میں داخلہ20 شوال کو یا17 شوال کو بند ہو جاتا ہے، لیکن حضرت رحمة الله علیہ وہ تو مہتمم تھے ،بانی تھے، ان کے ہاں محرم تک چلتا تھا اور طلباء کو بھی معلوم تھا، یا یہاں آکر انہیں اساتذہ یا پرانے طلباء بتا دیتے تھے کہ تعلیمات میں مت جانا، کسی طرح حضرت کے پاس چلے جانا۔
وہ حضرت کے پاس پہنچتے اور جاکردرخواست دیتے، حضرت پوچھتے کہاں سے آئے ہو؟ بتاتے فلاں جگہ سے، کیا پڑھنا ہے؟ کتابیں رکھی ہوتی تھیں، حضرت فرماتے فلاں کتاب اٹھاؤ اور وہاں بیٹھ کر مطالعہ کرو اور پھر میرے پاس آؤ، وہ طالب علم کتاب اٹھا لیتا ، جس درجے میں داخلہ لینا ہوتا اس درجے کے اعتبار سے کتاب اٹھاکر مطالعہ کرتا۔ حضرت کا تدریسی تجربہ اتنا قوی تھا کہ ایک سطر میں اس کی اہلیت کا اندازہ ہو جاتا کہ اس میں کچھ ہے یا نہیں، چناں چہ فوراً اسی وقت درخواست پر دستخط فرما دیتے اور اگر نااہل ہوتا تو بھی اسی وقت رد فرمادیتے۔
چناں چہ حضرت پر مدرسہ طاری تھا، حضرت جب فارغ ہوئے تو فراغت کے بعد اپنے اس مدرسے میں جہاں ابتدائی کتب حضرت نے پڑھی تھیں، اس کا نام ہے مفتاح العلوم جلال آباد، چناں چہ آپ کے جو استاد تھے سب سے پہلے استاد ، حضرت مولانا مسیح الله خان صاحب رحمة الله علیہ ہیں، وہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله علیہ کے خلیفہ اجل تھے، تو حضرت فراغت کے بعد مفتاح العلوم آگئے اور حضرت مولانا مسیح الله خان صاحب نے مدرسے کا استاد بھی مقرر فرمایا او رناظم بھی مقرر فرمایا، چناں چہ جیسے میں نے عرض کیا کہ حضرت پر تو مدرسہ طار ی تھا، تو حضرت نے آتے ہی جو محنت اور کوشش فرمائی تو وہ مدرسہ جہاں چند طلبا ہوتے تھے وہاں طلباء کا ہجوم جمع ہوگیا، ہر طرف سے طلباء کی آمد شروع ہو گئی اور حضرت اس زمانے میں بھی اور جامعہ فاروقیہ کے ابتدائی زمانے میں بھی پندرہ، پندرہ سولہ سولہ اٹھارہ اٹھارہ کتابیں پڑھاتے تھے اور جو کمرہ تھا حضرت کا یہاں جہاں اب قاسم منزل ہے تو اس میں تقریبا وہ جگہ جہاں اب مشورے کا کمرہ ہے اس جگہ حضرت کا کمرہ نمبر پانچ تھا، تو حضرت پیچھے گوٹھ کی طرف والی جو دیوار ہے اس سے ٹیک لگاتے تھے او رحضرت کے سر سے اوپر کھڑکی تھی اورکھڑکی سے نیچے دیوار تھی تو جب تھک جاتے تھے تو حضرت اپنا سر دیوار سے رگڑتے تھے، تو اس طرح سر رگڑنے سے دیوار میں اس جگہ نشان پڑ گیا تھا۔
چناں چہ مفتاح العلوم جلال آباد میں جب حضرت پڑھاتے تھے تو حضرت پہ مدرسہ اتنا طاری تھا کہ ایک سبزی فروش تھا اور جیسے آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ لوگ سبزی ریڑھی ٹھیلے پر رکھ کر پھیری لگاتے ہیں، گلی گلی چکر لگاتے ہیں، آواز لگاتے ہیں ٹماٹر کی آواز، پالک کی آواز، تو ایسے ہی ایک سبزی فروش مدرسے کے سامنے سے روزانہ گزرتا تھا اور وہ پھیری لگاتا تھا اور سبزیوں کی آواز دیتا تھا تو ایک دن جب حضرت نے اس کی آواز سنی تو سبق سے اٹھ کر چلے گئے او رجاکر اس کو بلایا اور پوچھا کہ بھائی! تم جو یہ سبزی لگاتے ہو۔ پھیری لگاتے ہو، تمہیں شام میں اس سے کتنی آمدن ہو جاتی ہے؟ کتنے پیسے مل جاتے ہیں؟ اس زمانے کا روپیہ پیسہ بہت قوی تھا، اس نے کہا جی مجھے شام کو دو روپے آمدنی ہو جاتی ہے تو حضرت نے فرمایا ٹھیلہ چھوڑو، ادھر میرے پاس مدرسے میں آؤ، شام کو دو روپے میں تمہیں دے دیا کروں گا، چناں چہ اس کو اندر بلا لیا، اس کو تو دو روپے سے غرض تھی، چناں چہ اس کو پڑھایا، آپ حیران ہوں گے کہ وہ شخص جو سبزی بیچتا تھا اس کو حضرت نے پڑھایا، پڑھایا اور وہ درجہ بہ درجہ آگے چلتا گیا اور بالآخر وہ مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد کا شیخ الحدیث بنا اور ان کا انتقال جو ہوا تو وہ شیخ الحدیث ہی کی حیثیت سے ہوا او ران کا نام تھا حضرت مولانا محمد یسین صاحب رحمة الله علیہ، تو حضرت پر طاری تھا مدرسہ۔ آپ حضرات سے جو گزارش ان تمام واقعات او ران تمام حالات کے پیش نظر کرنی ہے وہ یہ کہ مدرسے کو اپنے اوپر طاری کریں جہاں بھی ہوں، یہاں جب حضرت تشریف لائے تھے کچھ نہیں تھا یہاں، سوائے مخالفت کے اور سوائے تکالیف کے کچھ نہیں تھا، یہ جو بہت سے لوگ کہتے ہیں کیسے کام کریں گے؟ اگر آپ کی نیت درست ہے او رآپ الله تعالیٰ کی رضا او راس کی خوش نودی کے لیے کر رہے ہیں او رہمارے اکابر نے جس مقصد کے لیے مدرسہ قائم فرمایا تھا وہ ہی نیت آپ کی ہے، تو پھر آپ چاہے جنگل میں ہوں، صحرا میں ہوں، آپ پہاڑ میں ہوں، آپ چھوٹی سی بستی میں ہوں، کہیں بھی ہوں، آپ الله کا نام لے کر بیٹھ جائیں، الله تعالیٰ پروانے بھیجنا شروع کر دیں گے، آج ماشاء الله آپ کی یہ جو تعداد آج موجود ہے یہ سب حضرت کے لیے صدقہ جاریہ ہے یا نہیں ہے؟!
یہاں کچھ نہیں تھا، طلباء آتے تھے، حضرت فرماتے تھے کہ بھائی! یہاں رہنے کی جگہ نہیں ہے، طلباء کہتے ہمیں جگہ نہیں چاہیے، ہم تو مسجد میں، صحن میں، فرش پہ زمین پہ سو جائیں گے، حضرت فرماتے بیت الخلاء کا نظام نہیں ہے، آپ پریشان ہوں گے اور بڑے بڑے مدرسے ہیں، وہاں چلے جائیں۔ طلباء کہتے اس کا بھی انتظام ہم خود کریں گے، حضرت فرماتے کہ بھائی! ہمارے پاس مطبخ کا نظام بہت کم زور ہے، پریشان ہوں گے۔ وہ کہتے ہمیں کھانا بھی نہیں چاہیے، ہمیں تو سبق چاہیے، چناں چہ حضرت رحمة الله علیہ ان کی خدمت کرتے، انہیں پڑھاتے تھے۔ آپ حیران ہوں گے آج کے طلباء تو ان کتابوں کے ناموں سے بھی واقف نہیں،سُلَّم حضرت پڑھاتے، ملاحسن حضرت پڑھاتے تھے، ملا جلال حضرت پڑھاتے تھے، میر زاہد حضرت پڑھاتے تھے، شرح چغمینی حضرت پڑھاتے تھے، شمس بازغہ حضرت پڑھاتے تھے، یہ سب پڑھاتے تھے، دن رات۔ آپ حضرات سمجھتے ہیں کہ ایسا ہی ہمیشہ سے تھا، ایسا نہیں تھا۔
ہم نے جب حضرت سے صحیح بخاری پڑھی تھی، اس وقت صحیح بخاری کی دو جلدیں نہیں تھیں، ایک تھی اور مکمل بخاری حضرت پڑھاتے تھے اور ترمذی کی دوجلدیں نہیں تھیں، ایک تھی اور مکمل ترمذی حضرت پڑھاتے۔ تو مشکوٰة شریف کی دو جلدیں نہیں تھیں ایک تھی اور مکمل مشکوٰة حضرت پڑھاتے تھے اور یہ جتنے میں نے کتابوں کے نام لیے جو آپ کے لیے نامانوس ہیں ، وہ سب بھی حضرت پڑھاتے تھے، تو چوں کہ حضرت پر مدرسہ طاری تھا اور یہ تمنا اور خواہش ہے کہ الله تعالیٰ آپ سب میں حضرت رحمة الله علیہ والی نسبت منتقل فرمائے اور آپ پر بھی مدرسہ طاری ہو، یہ جو مدرسہ ہے جیسے میں نے فاروقیہ کے ابتدائی احوال سنائے، یہ عمارتوں کا نام نہیں ہے، یہ ہماری بھول ہے۔ دارالعلوم دیوبند جو قائم ہوا تھا، کیسے ہوا تھا؟ ایک انار کا درخت، ایک استاد ایک شاگرد، کئی سبق ہیں اس میں کہ نہ تو بہت زیادہ طلباء چاہییں اورنہ عمارتیں چاہییں، بیٹھ جاؤ الله کا نام لے کر تو ملا محمود رحمة الله علیہ بیٹھے خالص الله کی رضا کے لیے اور ان کے شاگرد وہ بھی محمود، وہ بھی خالص الله کی رضا کے لیے تو کہاں پہنچایا الله نے؟ وہ شاگرد جو محمود حسن دیوبندی ہیں انہیں شیخ الہند بنایا اور ایسا الله تعالیٰ نے انہیں مقام عطا فرمایا کہ استاد الکل بنے، چناں چہ مدرسے کے لیے عمارت کی ضرورت نہیں، مدرسے کے لیے ضروری نہیں کہ پچاس طالب علم ہوں، سو طالب علم ہوں، نہیں ،ایک کافی ہے ، نیت آپ کی صحیح اور مضبوط ہونی چاہیے، تو الله تعالیٰ وہیں سے چشمے جاری فرما دیں گے، علم کے چشمے، عمل کے چشمے اور یہ جتنے ہمارے اکابر گزرے ہیں، بشمول ہمارے حضرت کے ، جیسے یہ لوگ علم کے پہاڑ تھے ایسے ہی یہ لوگ عمل کے بھی پہاڑ تھے ، ان کی روحانیت بھی عروج پر تھی، معمولی درجے کے روحانی لوگ نہیں تھے۔
یہاں کراچی میں پرویز مشرف کا جب دور شروع ہوا تو مدارس کے اوپر بہت سخت زمانہ آیا، پورے ملک میں آیا، یہاں کچھ واقعات ایسے ہوئے کہ پولیس اور رینجرز رات کے وقت مدارس کی دیواریں پھلانگ کر مدرسوں کے اندر داخل ہوئے ،گیٹ سے داخل ہونے کی بجائے، تو تمام علما پریشان، سخت پریشان۔ حضرت رحمہ الله علیہ کافی بیمار تھے اس زمانے میں، تو تمام علماء کا مشورہ یہ ہوا کہ حضرت کے پاس جائیں، کوئی مشورہ کریں کہ کیا کیا جائے؟ چناں چہ پورے شہرکے بڑے علماء کرام یہاں تشریف لائے۔
انہیں یہ معلوم بھی تھا کہ حضرت بیمار ہیں، حضرت کو اطلاع بھی ہو گئی تھی، حضرت نے فرمایا آجائیں، چناں چہ دفتر کے برابر مشورے والے کمرے میں سب حضرات جمع تھے، حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ جب سب حضرات آجائیں تو مجھے لے جانا، ملاقات کر لیں گے، چناں چہ جب سب پہنچ گئے تو حضرت تشریف لائے، ویل چیئر پر تھے، ضعف بہت زیادہ تھا اورکمرے میں دارالافتاء او رگوٹھ کی طرف، جو کمرے کا کونہ ہے، حضرت کی ویل چیئر وہاں تھی، حضرت نے ایک نظر سب پر ڈالی اور نظر سب پر ڈالنے کے بعد ہاتھ یوں بلند فرمایا، بھائی مولانا! کچھ نہیں ہو گا، کچھ نہیں ہو گا، آپ جائیں، جاکر اپنے مدارس کے اندر جو کام ہمارے ذمے ہے اس کو اختیار کریں، کچھ نہیں ہو گا، ایک بڑے عالم نے فرمایا حضرت! واقعی کچھ نہیں ہو گا؟ حضرت نے فرمایا: ہاں کچھ نہیں ہو گا، کچھ بھی نہیں ہوا۔
آپ سے درخواست ہے کہ علمی اعتبار سے بھی آپ اپنے دادا استاد نور الله مرقدہ کی طرح علم میں مضبوط ہوں، دن رات محنت کریں، بھرپور محنت کریں اور عمل میں بھی کہ جیسے ان پر روحانیت طاری تھی، جو اساتذہ یہاں موجود ہیں اور جن طلباء نے حضرت کی زیارت کی ہے، کہ حضرت مسجد میں بہت وقت گزارتے تھے، مسجد میں پہلے جانا، دیر تک مسجد میں رہنا، اذکار میں مشغول رہنا، گھر میں بھی ان کے معمولات یومیہ پانچ سپارے تلاوت کرنے کا تھا، چوں کہ مجھے الله تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کی خدمت کرنے کا بہت طویل زمانہ دیا،حضرت فرماتے کہ بھائی! پانچ سپارے تو بہت آسان ہیں، پانچ نمازیں ہیں او رپانچ سپارے، ایک سپارہ فجر میں، ایک ظہر میں، تیسرا عصر میں، چوتھا مغرب میں ،پانچواں عشاء میں۔
پھر کبھی کبھی مجھے ترغیب کے لیے فرماتے تھے کہ مولوی صاحب اس کو اور آسان بھی کرسکتے ہیں کہ آدھا فجر سے پہلے پڑھ لو، آدھا فجر کے بعد، نہ آپ کو پتہ چلے گا نہ دیکھنے والے کو ،جو رواں ناظرہ پڑھتے ہوں ان کے لیے بیس منٹ میں پارہ پڑھنا آسان ہے دس منٹ نماز سے پہلے، دس منٹ نماز کے بعد، آپ کا کوئی کام متاثر نہیں ہو گا اور فرماتے دوسرا پارہ ظہر سے پہلے آدھا اور آدھا ظہر کی نماز کے بعد یہ تو حضرت رحمة الله علیہ کی قرآن کریم کی ادنی مقدار تھی، وگرنہ دس سپارے بھی پندرہ سپارے بھی ہو جاتے تھے۔
آپ نے اساتذہ سے سنا ہو گا کہ حضرت نے حفظ قرآن مکمل ایک مہینے میں کیا اور لوگوں کو یقین نہیں آتا تھا تو اگلے برس سارے علاقے کے حفاظ وقراء جمع ہو گئے کہ دیکھیں ایک مہینے والا حافظ کیسا ہے؟ تو حضرت نے اگلے برس پھر سنایا۔
اور اس کے ساتھ ہی ساتھ حضرت کی جو بہت ہی عجیب صفت تھی وہ یہ کہ وہ بہت جامع تھے۔
ایک دفعہ ٹنڈوآدم سندھ میں بہت بڑی جامع مسجد میں حضرت کا بیان تھا، وفاق کے حوالے سے پورے سندھ کے علماء جمع تھے، حضرت نے فرمایا کہ میرے پاس دوپرہیں او ران دو پروں کے ذریعے میں اڑرہا ہوں، ایک پر ہے حضرت مدنی رحمة الله علیہ کی نسبت کا اور دوسرا پر ہے حضرت تھانوی رحمة الله علیہ کی نسبت کا، یہ دو پر ہیں۔
حضرت کی نسبت بڑی قوی تھی، حضرت مدنی رحمة الله علیہ کا ذکر تو بطور خاص کرتے، حضرت مدنی رحمة الله علیہ کا ذکر فرماتے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے، فنا تھے اپنے استاد میں اور یہی حال حکیم الامت رحمة الله علیہ کے ساتھ تھا۔
چناں اس ملک میں اتنی معتدل شخصیت کہ وہ حضرت تھانوی رحمة الله علیہ سے بھی اس طرح کا تعلق رکھتے ہوں اور حضرت مدنی رحمة الله علیہ سے بھی اسی طرح کا تعلق رکھتے ہوں، بہت کم پائی جاتی ہے، عام طور پر کہیں نہ کہیں افراط وتفریط ہو جاتی ہے۔
دوسری چیز جو حضرت میں تھی وہ دعوت وتبلیغ کے حوالے سے، یعنی ایسا لگتا تھا کہ حضرت ہیں ہی تبلیغی، یہاں کراچی میں اجتماع ہوتا ہے حضرت رحمة الله علیہ ضعیف بھی، بیمار بھی، حضرت نے مجھ سے فرمایا: بھائی! اجتماع میں چلو اور وہاں پہنچ کر فرمایا کہ یہاں تین دن رہنا ہے، میں نے عرض کیا کہ حضرت آپ بیمار ہیں، آپ ضعیف ہیں۔ فرمایا: نہیں، دعا کے بعد جائیں گے۔
تو حضرت رحمة الله علیہ پر دعوت وتبلیغ بھی غالب تھی، جتنے دین کے کام علی منہاج النبوہ ہیں ان سب کے بارے میں حضرت کو شرح صدر تھا، جہاد فی سبیل الله، جمعیت علمائے اسلام کے حوالے سے، دعوت وتبلیغ کے حوالے سے، فرق باطلہ کے حوالے سے جو حضرات کام کر رہے ہیں، سب کے حوالے سے حضرت کا سینہ کھلا ہوا تھا، سب یہاں تشریف لاتے تھے، سب کو سینے سے لگاتے تھے۔
چناں چہ اس جامعہ کے فضلا کا یہ مزاج ہو نا چاہیے کہ جب آپ یہاں سے فارغ ہو کر جائیں، اگر وہاں علاقائی ضرورت سیاسی میدان میں کام کرنے کی ہے بھرپور کام کریں، پھر یہی اساتذہ جوآپ کو یہاں روکتے تھے سب آپ کو شاباش دیں گے، اس وقت اگر آپ نے سیاست میں حصہ لیا تو آپ کی استعداد برباد ہو جائے گی۔
یہ وقت نہیں ہے، آپ فارغ ہو کر جائیں، آپ دعوت کے کام میں سال لگائیں، آپ نے آٹھ، نو، دس سال لگائے ہیں، اس ایک سال کا پتہ بھی نہیں چلے گا، ابھی میں رائیونڈ گیا تھا، اپنے فضلا سے ملاقاتیں ہوئیں، سب کے وقت ختم ہو رہے تھے میں نے پوچھا پتہ چلا؟ کہا نہیں پتہ ہی نہیں چلا، سال ختم ہو گیا، سال لگائیں، اسی طریقے سے کسی الله والے سے بیعت ضرور ہوں اور اپنے آپ کو آپ بے مہار اور بے لگام نہ چھوڑیں، کسی کی نگرانی میں کام کریں، مشورہ کریں، پوچھتے رہیں۔
اور آخری بات کہ اپنی مادر علمی سے جتنا جوڑ ہو گا، جتنا ربط ہو گا، جتنا تعلق ہو گا آپ اتنی ہی ترقی کریں گے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ ترقی کریں، آپ آگے جائیں، تو آسان ترین گُر اور آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ اپنی مادر علمی سے جڑے رہیں، کہیں پر بھی ہوں آپ، چناں چہ ہمارے وہ فضلاء جو دور دراز ملکوں میں کام کرتے ہیں لیکن جڑے ہوئے ہیں فون کے ذریعے سے، خط کے ذریعے سے، آج کل واٹس ایپ کا زمانہ ہے، واٹس ایپ کے ذریعے، آنے کے ذریعے سے، ہمیں بلانے کے ذریعے سے ابھی میں آپ کی خدمت میں دو دن پہلے حاضر ہوا ہوں، پورے پاکستان کا سفر کیا اس شدید ترین سردی اور شدید ترین موسم میں، اور الحمدلله ثم الحمدلله جامعہ کے فضلاء، حضرت کے شاگرد جگہ جگہ خدمات انجام دے رہے ہیں، ربط میں ہیں تعلق میں ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں، تو آپ سے بھی درخواست ہے کہ یہ ساری باتیں جو آپ سے عرض کی گئی ہیں یہ خالص اور خالص الله کی رضا کے لیے کی گئی ہیں ،ان کو سمجھیں، آپ عام لوگ نہیں ہیں، آپ نظریاتی لوگ ہیں، آپ عام حالات میں نہیں ہیں آپ آزمائش میں مبتلا ہیں، اگر آپ کے پاس دیکھنے والی آنکھیں ہیں، اور سننے والے کان ہیں اورسمجھنے والا دل اور دماغ ہے تو آپ کو خوب اچھی طرح اندازہ ہوگا کہ آپ آزمائش میں ہیں، آپ کا اسلحہ آپ کی نماز ہے، آپ کا سجدہ ہے، آپ کی دعا، تلاوت اور ذکر ہے، آپ کی روحانیت ہے، یہ اگر قوی ہو گی تو آپ مرد میدان بن سکیں گے اور اگر وہ قوی نہیں ہوگی تو پھر تو کوئی کام نہیں ہو سکے گا، اس لیے درخواست ہے کہ اپنے عمل کو بھی مضبوط کریں، اپنے علم کو بھی مضبوط کریں ، اپنی تاریخ کو بھی خوب پڑھیں، اپنے اکابر کو پڑھیں۔
یہ ہمارے اکابر تاریخ کے منفرد کردار ہیں، الله تعالیٰ نے ان حضرات کو اتباع سنت کی برکت سے وہ مرتبہ او رمقام عطا فرمایا ہے کہ جو شاذ ہی کسی کو ملتا ہے، اس دور کے اندر برصغیر کے حضرات کو اور بالخصوص دارالعلوم دیوبند کے حضرات کو جو مرتبہ اور مقام عطا فرمایا، وہ معمولی نہیں، وہ بہت بڑا فیض ہے، جو تیزی کے ساتھ پور ی دنیا میں پھیل رہا ہے، الله تعالیٰ آپ سب کی حفاظت فرمائے اور الله تعالیٰ آپ سب کو کام یاب وکام ران فرمائے۔
امتحان میں بھی آپ کو اعلیٰ درجات سے کام یاب فرمائے اور مستقبل میں بھی الله تعالیٰ آپ سے دین کی ہمہ جہت خدمات لے اور الله تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔
سبحان الله وبحمدہ، سبحانک اللھم وبحمدک، نشھد ان لا إلہ إلا أنت نستغفرک ونتوب إلیک․