اجتماعی زندگی کے تقاضے

idara letterhead universal2c

اجتماعی زندگی کے تقاضے

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی

انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ فرد کی سوچ اپنے خاندان سے آگے نہیں بڑھ پاتی، وہ اپنی ذات میں جیتا ہے، اپنے بال بچوں کے بارے میں سوچتا ہے، اس کے غور و فکر کا دائرہ انتہائی محدود ہوتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میں اچھا تو سب اچھا ، اس کی منصوبہ بندی اور ترقیاتی کام بھی اسی دائرہ میں محدود ہوتا ہے، سماج میں اس قسم کے افراد کثرت سے پائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے خود غرضی عام ہو رہی ہے اور اپنا مفاد ، اپنا بھلا سے بات آگے نہیں جاتی ۔

اجتماعی زندگی میں انسان کی سوچ اپنی ذات ، خاندان ؛ بلکہ رشتہ داری سے نکل کر ملی ، سماجی اور معاشرتی دائرے میں آگے بڑھتی ہے ، اس کے غور وفکر کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور وہ اپنا نقصان کر کے بھی ملک وملت کے مفاد کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتا ہے اور اس کی عملی حصہ داری اس میں ہوتی ہے، ایسے لوگ اس بات پر قادر ہوتے ہیں کہ مختلف طبقات کو جوڑ کر ایک ایسا اجتماعی نظام وجود میں لائیں ، جس میں تشاور(مشاورت) ، توافق اور تعاون کا جذبہ پایا جاتا ہو، ایسے لوگ ملک وملت کے لیے انتہائی نفع بخش ہوتے ہیں، وہ بیج کی طرح کھیت میں دفن ہو کر ،سرسبز و شاداب فصلوں کے لہلہانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

انفرادی سوچ کو اجتماعی رخ دینے اور مختلف طبقات کو جوڑنے میں بڑی اہم چیز آپس کا مشورہ ہے، یہ مشورہ عمومی ہونا چاہیے اور جن لوگوں کی اس ہدف تک پہنچنے میں ضرورت ہے، سب کو جوڑ لینا چاہیے، اس سے ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھتا ہے اور کام کو عملی طور پر زمین میں اتارنے میں مدد ملتی ہے، کاموں اور تنظیمی ڈھانچوں کے اعتبار سے کسی کا بڑا چھوٹا ہونا انتظامی ضرورت ہے، لیکن اجتماعی کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ مشوروں میں لوگوں کو شریک کیا جائے ، پھر یہ مشورے بند کمروں میں سازشوں کی طرح نہ کیے جائیں، ان میں کھلا پن لایا جائے ، سب کی سنی جائے اور فیصلہ اکثریت پر نہیں، قوت دلیل کی بنیاد پر کیا جائے ، مشورے کے اس عمل سے مزاجی ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنے کے جذبے کو فروغ ملے گا، اسی کو اصطلاح میں تو افق کہتے ہیں۔

مشورے اور موافقت کے بعد ضروری ہے کہ ایک مہم اور ٹیم کے طور پر کام کو آگے بڑھانے میں لگ جایا جائے اور مربوط انداز میں کام کیا جائے ، کام جس قدر آگے بڑھے اس کی اطلاع بھی ٹیم کے افراد کو ر ہے، تاکہ کام کے آگے بڑھنے پر حوصلہ افزائی کی جائے اور اگر کہیں کوئی رکاوٹ آ رہی ہے تو اس کو دور کرنے کے لیے سب مل کر کوشش کریں۔

اسلام اجتماعی زندگی کا سب سے بڑا داعی ہے، اس کی عبادتیں اجتماعی زندگی گزارنے کا مظہر اتم ہیں، نماز با جماعت پڑھی جائے، مہینہ بھر کا روزہ ایک ساتھ رکھا جائے ، کعبہ،منی ، عرفہ، مزدلفہ ہر دن اپنی جگہ پر موجود ہونے کے باوجود حج کے لیے پانچ دن کیتخصیص کا مفہوم بھی یہی ہے کہ اجتماعی طور پر اس عبادت کو انجام دیا جائے۔

اجتماعی زندگی کو بر پا کرنے کے لیے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ زندگی کے دوسرے کاموں کی طرح ہمارے لیے نمونہ عمل ہے، آپ صلی الله علیہ و سلم کومؤمنین کے لیے انتہائی شفیق ، رحم دل، بلکہ رحمة للعالمین بنایا گیا، تا کہ لوگ ان کے گرد جمع ہوجائیں، لوگوں کو معاف کرنے اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کی ہدایت دی گئی ، مشورہ کرنے پر زوردیا گیا اور پھر جب فیصلہ ہو جائے تو اسے اللہ پر بھروسہ کر کے کر گزرنے کی بات کہی گئی۔ واقعہ یہی ہے کہ قائدین کا نرم دل ہونا ضروری ہے، اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کی یہ صفت خاص بیان کی کہ اللہ رب العزت نے اپنی رحمت سے آپ کو نرم دل بنایا ، اگر آپ سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے چھٹ جاتے۔

غلطیاں کام کرنے والے سے ہی ہوتی ہیں، شیخ سعدی نے لکھا ہے کہ” نہ کردن یک عیب و کردن صد عیب است“، یعنی اگر آپ کام نہیں کرتے تو یہ ایک عیب ہے کہ لوگ آپ کو نا کارہ کہہ کر گذر جائیں گے، لیکن اگر آپ تعمیری کاموں میں لگے ہوئے ہیں تو لوگ دس عیب نکالیں گے، تنقید کریں گے، برا بھلا کہیں گے، ظاہر ہے آپ اور ہم سب انسان ہیں ، اس کے اثرات دل و دماغ پر پڑنا فطری ہے، اس سے حوصلے ٹوٹتے ہیں، کام کا جذبہ سرد پڑتا ہے، یہ اثرات دل و دماغ پر کم پڑیں یا نہ پڑیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے ساتھیوں کو معاف کرنے کا مزاج بنایا جائے، پھر چوں کہ ان کے طرز عمل سے اجتماعی کاموں میں رخنہ پیدا ہو گیا ہے، اس لیے صرف دل سے معاف کرنا کافی نہیں ہے ، ان کے لیے مغفرت کی دعا بھی کرنی چاہیے، آپ کے معاف کرنے سے دنیاوی طور پر کام میں خلل نہیں واقع ہوگا اور آپ کی دعائے مغفرت اسے آخرت کی باز پرس سے بچانے کا سبب بنے گی۔

معاف کرنے اور مغفرت کی دعا کرنے کے بعد بھی اجتماعی نظام کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ان کومشورے میں شریک کیا جائے ، تاکہ وہ یہ نہ محسوس کریں کہ مجھے چھانٹ دیا گیا ہے ، چھانٹنے کے عمل سے بھی آدمی ٹوٹ کر انفرادی زندگی کی راہ پر چل پڑتا ہے، جو اجتماعی زندگی کو سبوتاژ کرنے کا عمل ہے۔

اتنے مراحل کے بعد جب مشورہ سے کوئی بات طے ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کر کے کام کا آغاز کر دیا جائے اور اب لیت و لعل کا سہارا نہ لیا جائے، اللہ پر بھروسہ ہمارے کام کی اساس ہے، اخلاص کے ساتھ اس راہ پر آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ بہت سارے لوگ اس کے بعد بھی کوشاں ہوتے ہیں کہ جو دن مقرر کیا گیا ہے اس تک پہنچنے میں رکاوٹیں کھڑی کریں اور ان کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ غیر ضروری مشورے دے کر کام یابی کے یقین کو تذبذب میں ڈالنے اور شکوک و شبہات پیدا کرنے میں اپنے تئیں ان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے مفاد کے لیے اجتماعی منصوبوں کو انفرادیت کی طرف لے جائیں، تاکہ ان کی اہمیت برقرار رہے۔ ایسے لوگ اجتماعی زندگی کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے ، وہ اپنے خول سے باہر نہیں نکل پاتے ، بظاہر وہ اجتماعی زندگی سے جڑے ہوتے ہیں، لیکن وہ اندر ہی اندر اجتماعیت کو فنا کے گھاٹ اتارنے کے لیے کام کرتے ہیں ، ایسے لوگوں سے ہمہ وقت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

اجتماعی زندگی کی سب سے چھوٹی اکائی خاندان ہوتا ہے اور سب سے زیادہ جھگڑے اجتماعی زندگی کے تقاضوں کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں، خاندان کا سر براہ اگر ان امور کی رعایت کرے، ہر کام میں گھر کے لوگوں سے مشورہ لینے کے ساتھ ان کی بھول چوک کو نظر انداز کرنے کا مزاج بنالے تو یہ جھگڑے ختم ہو جائیں گے، لیکن وہاں بھی اپنی سرخ رُوئی اور گارجین سے قریب ہونے کی خواہش کی وجہ سے افراد ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور خاندان ٹوٹ کر رہ جاتا ہے ، آج خاندانی انتشار اور بکھراؤ کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہاں بھی اجتماعی زندگی کے تقاضوں کوملحوظ نہیں رکھا جا رہا ہے۔

اجتماعی زندگی کو مضبوط ، مربوط اورمستحکم کرنے کے لیے انابت الی اللہ بھی انتہائی ضروری ہے، کیوں کہ لوگوں کے قلوب تو اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہیں، سارے کام اس کی مرضی اور مشیت سے ہوتے ہیں، ہمیں چوں کہ اللہ کی مرضی کا پتہ نہیں، اس لیے اسباب کے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، نتیجہ وہی آنا ہے جو مرضی مولی ہے۔

اجتماعی کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ملکی قوانین کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے اور منصوبہ بندی کرتے وقت مضبوطی سے قوانین کی پاس داری کی جائے ، یقینا بہت سارے لوگ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے پر یقین رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ہمیں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لہذا ہمارا عمل ملکی قوانین کے دائرے میں ہونا چاہیے ، ہمارے بڑوں نے یہی سکھایا ہے اور یہی وقت کا تقاضا بھی ہے۔

تعمیر حیات سے متعلق