اجابتِ دعوت کی شرعی حیثیت اور فقہی حکم

idara letterhead universal2c

اجابتِ دعوت کی شرعی حیثیت اور فقہی حکم

مفتی عبید الرحمن صاحب

 
احادیث مبارکہ میں مسلمان کی دعوت قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے، مسلمان کے حقوق میں سے اس بات کو بھی شمار کیا گیا ہے کہ اس کی دعوت قبول کی جائے۔ پہلے زمانے میں اس حکم پر عمل کرنا کچھ زیادہ مشکل اس لیے نہ تھا کہ لوگوں میں سادگی کا غلبہ تھا، دل اور زبان کے درمیان فاصلے کم تھے، دور دور تک دعوت دینے کا زیادہ رواج نہ تھا، لیکن اب نہ وہ سادگی رہی، نہ دل وزبان کے درمیان پہلے کی طرح ہم آہنگی برقرار رہی۔ دوسری طرف ذرائع ابلاغ میں بھی بے تحاشا ترقی ہوئی، جس کی وجہ سے دور دور تک دعوتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، موبائل کے ذریعے ایک ہی منٹ میں سینکڑوں افراد کو دعوت دی جا سکتی ہے، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ مصروفیات اور ضروریات میں بھی حد درجہ اضافہ ہو چکا ہے، اس لیے اگر ہر دعوت کو ضروری یا مسنون قرار دے کر اس پر عمل پیرا ہوا جائے تو دیگر ضروری مصروفیات ادھوری رہ جائیں گی۔ اس تناظر میں ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ فقہی نقطہ نظر سے اس مسئلہ کو اچھی طرح واضح کیا جائے۔
 
دعوت قبول کرنے کا حکم
 
اس بات پر تو اتفاق ہے کہ مسلمان کی دعوت قبول کرنا ہی بہتر ہے، یہ اس کے حقوق میں سے ہے کہ اس کی دعوت قبول کی جائے۔ تاہم قبول کرنے کی حیثیت کیا ہے؟ واجب اور ضروری ہے یا مسنون ومستحب؟ نیز دعوتوں کی بھی مختلف قسمیں ہو سکتی ہیں تو کیا ہر دعوت کا یہی حکم ہے یا اس میں کچھ فرق بھی ہے؟
اس کے متعلق جمہور اہل علم کے اقوال مختلف ہیں، فقہائے احناف کا موقف بھی آپس میں مختلف ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ مجموعی طور پر اس میں فقہائے حنفیہ بلکہ دیگر ائمہ مجتہدین کے درج ذیل تین قول ہیں:
 
1: سب دعوتوں کا قبول کرنا واجب ہے، اگر بلا وجہ کسی مسلمان کی دعوت کو قبول نہ کیا تو گناہ ہوگا۔
2: سب دعوتوں کا قبول کرنا مسنون ہے، بلاوجہ دعوت قبول نہ کرنا مناسب نہیں ہے، بلکہ خلاف سنت کام ہے۔
3: ولیمہ کی دعوت قبول کرنا واجب ہے اور دیگر دعوتوں کو قبول کرنا مسنون ہے۔
”شامی“ میں ہے:
 
وفي الہندیة عن التمرتاشي: اختلف في إجابة الدعوة، قال بعضہم: واجبة لا یسع ترکہا، وقال العامة: ہي سنة، والأفضل أن یجیب إذا کانت ولیمة وإلا فہو مخیّر، والإجابة أفضل… وفي البنایة: إجابة الدعوة سنة، ولیمة أو غیرہا،… وفي الاختیار: ولیمة العرس سنة قدیمة إن لم یجبہا أثم؛ لقولہ - S -: ((من لم یجب الدعوة فقد عصی اللّٰہ ورسولہ، فإن کان صائما أجاب ودعا، وإن لم یکن صائما أکل ودعا، وإن لم یأکل ولم یجب أثم وجفا)) لأنہ استہزاء بالمضیف، وقال - e -: ((لو دعیتُ إلی کراع لأجبتُ)) ۱ھ․ ومقتضاہ أنہا سنة مؤکدة، بخلاف غیرہا، وصرح شراح الہدایة بأنہا قریبة من الواجب․ وفي التتارخانیة عن الینابیع: لو دعی إلی دعوة فالواجب الإجابة إن لم یکن ہناک معصیة ولا بدعة، والامتناع أسلم في زماننا إلا إذا علم یقینا أن لا بدعة ولا معصیة اھ والظاہر حملہ علی غیر الولیمة لما مر ویأتی، تأمل. (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین، کتاب الحظر والاباحة، ج 6 ص 347)
 
ترجمہ: ”دعوت قبول کرنے کے بارے میں فقہاء کرام کا اختلاف ہے: بعض کے نزدیک قبول کرنا واجب ہے اور نہ جانے کی گنجائش نہیں، جب کہ عام فقہائے کرام کے نزدیک سنت ہے۔ اگر دعوت ولیمہ کی ہو تو افضل یہ ہے کہ دعوت قبول کرے، اگر ولیمہ کی نہ ہو تو پھر اختیار ہے، البتہ قبول کرنا بہتر ہے۔ بنا یہ میں ہے کہ: ولیمہ وغیرہ کی دعوت قبول کرنا سنت ہے۔ الاختیار میں ہے کہ: شادی کے موقع پر ولیمہ کا اہتمام کرنا قدیم سنت ہے، اگر کوئی ایسی دعوت قبول نہ کرے تو گناہ گار ہو گا، کیوں کہ آپ e کا ارشاد گرامی ہے کہ: جو دعوت قبول نہ کرے وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول e کا نافرمان ہے۔ لہٰذا اگر کوئی روزہ دار ہو تو دعوت قبول کر کے وہاں جا کر دعا دے۔ اگر روزہ نہ ہو تو کھانا کھا کر دعا دے۔ اگر کوئی نہ کھانا کھائے اور نہ ویسے جائے تو اس نے برا کیا اور اچھا نہیں کیا، کیوں کہ یہ میزبان کی توہین ہے، آپ e کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر مجھے کسی پائے کی دعوت دی جائے تو میں ضرور قبول کروں۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ دعوت قبول کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ ولیمہ کے علاوہ کا یہ حکم نہیں۔ شروح ہدایہ میں تصریح ہے کہ یہ دعوت واجب کے قریب ہے۔ تاتارخانیہ میں ہے کہ: اگر کسی کو دعوت دی جائے تو اگر وہاں کوئی گناہ، بدعت وغیرہ نہ ہو تو قبول کرنا واجب ہے، البتہ ہمارے اس زمانہ میں نہ جانا بہتر ہے (کیوں کہ عموماً دعوتوں میں منکرات کا سلسلہ چلتا ہے) البتہ اگر کہیں یقینی طور پر معلوم ہو جائے کہ وہاں کوئی گناہ، بدعت نہیں تو الگ بات ہے۔ مگر یہ ولیمہ کے علاوہ دعوت کے بارے میں ہے“۔
اس عبارت میں فقہائے حنفیہ کے مختلف اقوال ذکر فرمائے گئے ہیں، جن کا حاصل اوپر درج ہو چکا ہے۔ اکثر اہل علم تو ولیمہ یا ہر دعوت کو واجب کہتے ہیں، لیکن عام فقہائے احناف عام طور پر دعوت قبول کرنے کو مسنون لکھتے ہیں، چناں چہ ہماری فقہی کتابوں کے ”حظر واباحت“ میں یہ مسئلہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اگر کسی شخص کو دعوت دی جائے اور مجلس میں کوئی لہو ولعب یا گناہ کا کام شامل ہو تو اس کو کیا کرنا چاہیے؟
 
اس مسئلہ کے ضمن میں ہدایہ اور بدائع وغیرہ ا کثر کتابوں میں ”اجابتِ دعوت“ کو مسنون قرار دیا گیا ہے، تاہم بعض فقہائے کرام نے یہاں بھی سنیت اور وجوب دونوں اقوال کا ذکر فرمایا ہے، مثال کے طور پر ” فتاوی قاضی خان“ میں ہے:
 
”لا بأس بأن یجیب ویطعم وینکر معصیتھم وفسقھم؛ لأن إجابة الدعوة واجبة أو مندوبة فلا یمتنع لمعصیة اقترنت بھا“․ (فتاوی قاضیخان: کتاب الحظر والإباحة، وما یکرہ أکلہ وما لا یکرہ وما یتعلق بالضیافة، ج 3 ص 248)
 
ترجمہ: ”منکرات پر مشتمل دعوت میں لوگوں کے منکرات اور گناہ پر نکیر کرتے ہوئے دعوت قبول کر کے کھانا کھانے کی گنجائش ہے، کیوں کہ دعوت قبول کرنا واجب یا مستحب ہے لہٰذا گناہ کی آمیزش کی وجہ سے اسے نہیں چھوڑا جاسکتا“۔
 
اقوال میں تطبیق کی صورت
 
لیکن متعدد محقق حنفیہ کے کلام کی طرف مراجعت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اقوال کا یہ اختلاف کچھ زیادہ نتیجہ خیز نہیں ہے، جو حضرات اس کو سنت کہتے ہیں، وہ اس سے سنت موٴکدہ مراد لیتے ہیں اور حنفیہ کے نزدیک سنتِ موٴکدہ حکم کے لحاظ سے واجب کے قریب تر ہے۔ یہ ایسا ہی اختلاف ہے جیسا کہ اذان اور جماعت کی فقہی حیثیت کے متعلق ہے کہ بعض اس کو سنت موٴکدہ اور بعض واجب قرار دیتے ہیں، لیکن علامہ سمرقندی اور ان کے داماد کاسانی رحمہ اللہ نے دونوں قولوں کو اسی طرح جمع فرمایا ہے کہ سنت موٴکدہ واجب کے قریب قریب ہوتا ہے۔
 
علامہ شلبی، علامہ اتقانی رحمہ اللہ کے حوالہ سے نقل فرماتے ہیں:
(قولہ: لا یترکہا لأجل النائحة) لا یُقال صلاة الجنازة واجبة، فلا یدل عدم ترکہا لاقتران المعصیة علی عدم ترک إجابة الدعوة لاقتران المعصیة؛ لأنہا سنة، وہي أضعف؛ لأنا نقول إن إجابة الدعوة وإن کانت سنة إلا أنہا في قوة الواجب؛ لما روی صاحب السنن بإسنادہ إلی عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((من دُعی فلم یُجب فقد عصی اللّٰہ ورسولہ، ومن دخل علی غیر دعوة دخل سارقاً وخرج مغیراً)) وروی فی السنن أیضاً مسنداً إلی ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((إذا دُعی أحدکم إلی الولیمة فلیأتہا، فإن کان مفطراً فلیطعم، وإن کان صائماً فلیدع)) وروی فی السنن أیضاً مسنداً إلی جابر قال: قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((من دُعی فلیجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترک))، ذکرہ فی کتاب الأطعمة․ اھ اتقانی. (حاشیة الشلبي علی تبیین الحقائق، کتاب الکراھیة، ج 6 ص 13)
 
ترجمہ: ”نماز جنازہ کو نوحہ کرنے والی عورتوں کی وجہ سے نہیں چھوڑا جائے گا۔ کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ چوں کہ نماز جنازہ واجب ہے لہٰذا گناہ کی وجہ سے اسے نہ چھوڑنے سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ دعوت جو کہ سنت ہے وہ بھی ترک نہ کی جائے، کیوں کہ سنت کا مرتبہ واجب سے کم ہے، کیوں کہ دعوت قبول کرنا اگرچہ سنت ہے، مگر واجب کی طرح اہمیت کا حامل ہے۔ سنن میں عبد اللہ بن عمرw سے آپ e کا ارشاد گرامی منقول ہے کہ: ”دعوت ملنے کے بعد قبول نہ کرنے والا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول e کا نافرمان ہے اور جو دعوت کے بغیر شامل ہو جائے تو وہ چور داخل ہوتا ہے اور ڈاکو کی طرح وہاں سے نکلتا ہے“۔ نیز دوسری روایت میں ہے کہ: ”جسے ولیمہ کی دعوت دی جائے تو وہ ضرور شرکت کرے، اگر روزہ نہ ہو تو کھانے میں شریک ہو جائے اور اگر روزہ دار ہو تو نہ کھائے“۔ نیز حضرت جابرt سے آپ e کا ارشاد گرامی نقل ہے کہ: جسے دعوت ملے وہ ضرور شریک ہو جائے، اگر چاہے تو کھائے، ورنہ نہ کھائے (ویسے شریک ہو جائے)۔
 
اس تفصیل کا حاصل یہ ہوا کہ مسلمان کی دعوت قبول کرنا بالاتفاق مستحسن اور باعث ثواب کام ہے، تاہم فقہی حیثیت سے متعلق اہل علم کے اقوال مختلف ہیں، بعض کے نزدیک مسنون اور بعض کے نزدیک واجب ہے، جب کہ بعض دعوت ولیمہ اور اس کے علاوہ دعوتوں میں فرق کرتے ہیں، لیکن سنت سے چوں کہ یہاں سنت مؤکدہ مراد ہے، اس لیے نتیجہ کے لحاظ سے ان دونوں اقوال میں کوئی زیادہ فرق باقی نہیں رہتا۔
 
دعوت قبول کرنے کی شرائط
 
جس طرح مختلف روایات میں مسلمان کی دعوت قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان روایات کی بنا پر حضرات فقہائے کرام نے بھی اس کو واجب یا سنت مؤکدہ قرار دیا ہے، اسی طرح متعدد روایات میں بعض دعوتوں اور ان کے قبول کرنے کی حوصلہ شکنی بھی فرمائی گئی ہے اور فقہائے کرام نے ان جیسی روایات و وجوہات کی بنا پر متعدد دعوتوں کے قبول کرنے کو غیر ضروری یا مکروہ بھی قرار دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کی ہر قسم کی دعوت قبول کرنا ضروری یا مسنون نہیں ہے، بلکہ بعض دعوتیں ایسی بھی ہیں جن کا قبول کرنا ضروری یا مسنون نہیں ہوتا۔ ”اجابت دعوت“ کے مسنون ہونے کی کچھ شرائط ہیں، اگر وہ شرائط مکمل موجود ہوں تو ایسی دعوت کو قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اگر ان میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو ایسی دعوت کو قبول کرنا ضروری نہیں ہے۔
 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ شرائط کون سی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یوں تو شرائط متعدد ہیں، لیکن اگر ان سب کی کوئی جامع تعبیر ہو سکتی ہے تو وہ یہی ہے کہ دعوت قبول کرنے میں کوئی شرعی مانع موجود نہ ہو، چاہے وہ مانع جواز سے ہو یا وجوب سے۔ ”مرقاة“ میں ہے:
 
”ومن دعاکم“ أی إلی دعوة ”فأجیبوہ“ أی إن لم یکن مانع شرعی“․ (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح، کتاب الزکاة، باب فضل الصدقة، ج 4 ص 1355)
 
ترجمہ: ”اگر کوئی شرعی مانع نہ ہو تو جب دعوت ملے اسے قبول کریں“۔
 
علامہ عبد الرؤوف مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 
(ومن دعاکم فأجیبوہ) وجوبا إن کان لولیمة عرس وتوفرت الشروط المبینة فی الفروع وندبا فی غیرہا. (فیض القدیر، حرف المیم، رقم الحدیث: 10965، ج 6 ص 55)
 
ترجمہ: ”اگر دعوت ولیمہ ہو اور تمام ضروری شرائط پوری ہوں تو جب کوئی دعوت دے تو اسے قبول کرنا واجب ہے، اگر ولیمہ کے علاوہ ہو تو پھر مستحب ہے“۔
 
اس سے معلوم ہوا کہ شرعی مانع کے ہوتے ہوئے دعوت قبول کرنے کا حکم نہیں ہے۔ اب یہ موانع کون کون سے ہیں؟ ذیل میں انہی کی تفصیل ذکر کی جاتی ہے اور فہم میں سہولت پیدا کرنے کی خاطر ان کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ ضبط کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
 
دعوت دینے کے لحاظ سے موانع
قبول دعوت کے موانع
 
کسی کی دعوت قبول کرنا تبھی ضروری ہے جب کہ وہ عاقل، بالغ، آزاد اور مسلمان ہو۔ مسلمان ہونا تو اس لیے ضروری ہے کہ حدیث میں اجابت دعوت کو مسلمان کے حقوق میں سے شمار کیا گیا ہے اور اس سیاق میں روایات میں ”مسلم“ کے لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ ان حقوق کی اصل بنیاد یہی اسلام اور مسلمان ہونا ہی ہے، لہٰذا کافر کی دعوت قبول کرنا ضروری نہیں ہے۔ باقی تین شرائط (عقل، بلوغ، آزادی) کی وجہ واضح ہے کہ دعوت تو احسان وتبرع کا کام ہے اور اس کا اہل وہی شخص ہو سکتا ہے جس میں یہ تین صفات موجود ہوں، ورنہ تو محجور ہو گا۔
 
پانچویں شرط یہ ہے کہ دعوت کرنے کا مقصد فخر و مباہات کرنا، ریا وشہرت حاصل کرنا نہ ہو۔ اس شرط کی وجہ وہ روایات ہیں جن میں اس طرح دعوتوں کے قبول کرنے کی مذمت فرمائی گئی ہے۔ ”سنن ابی داؤد“ میں ہے:
عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ الْخِرِّیتِ، قَالَ: سَمِعْتُ عِکْرِمَةَ، یَقُوْلُ کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَقُوْلُ: ”إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم نَھَی عَنْ طَعَامِ المُتَبَارِیَیْنِ أَنْ یُوٴْکَلَ“․ (سنن أبی داود، کتاب الأطعمة، باب في طعام المتباریین، ج 3 ص 344)
 
ترجمہ: ”حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے کے مقابلے میں دعوت کرنے والوں کے کھانے سے منع فرمایا ہے“۔
 
ابن اثیر رحمہ اللہ اس کا معنی بیان کرتے ہیں:
(المتباریین) باری فلان فلاناً: إذا عارض فعلہ بفعلہ․ (جامع الأصول، الکتاب الأول في الکسب والمعاش، الفصل الثالث: في المکروہ والمحظور من المکاسب والمطاعم، ج10، ص 597)
 
ترجمہ: ”متباریین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایک دوسرے کے مقابلے میں کام کریں“۔
 
اسی طرح دعوت کرنے کا مقصود کیا ہوتا ہے اور اس قبول کرنا کیوں ممنوع ہے؟ علامہ خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 
یقال: تباری الرجلان إذا فعل کل واحد منھما مثل فعل صاحبہ لیری أیھما یغلب صاحبہ؟ وإنما کرہ ذلک لما فیہ من الریاء والمباھاة ولأنہ داخل في جملة ما نھي عنہ من أکل المال بالباطل․ (معالم السنن، کتاب الأطعمة، ومن باب طعام المتباریین، ج 4 ص 240)
 
ترجمہ: مقابلہ یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے کی طرح اس وجہ سے کام کرتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ کون غالب آتا ہے؟ یہ طریقہ ریا اور فخر کی وجہ سے مکروہ ہے، نیز یہ بھی ناجائز طریقے سے مال کھانے کی ممنوع صورتوں میں داخل ہیں“۔
 
معلوم ہوا کہ اس طرح دعوت کا اصل مقصد باہم مقابلہ کرنا اور اپنی برتری و عظمت جتلانا ہوتا تھا اور اس کو قبول کرنے کی ممانعت اسی بنیاد پر ہے کہ دعوت دینے والے کی نیت صاف نہیں ہوتی، اس کا مقصد کسی مسلمان کے ساتھ تعاون کرنا یا اسے خوش کرنا نہیں ہے، بلکہ اپنی بڑائی دکھانا مطلوب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر داعی کی نیت درست نہ ہو، خواہ درست نہ ہونے کی کوئی بھی وجہ ہو، تو اس کی دعوت قبول کرنا ضروری نہیں، بلکہ مکروہ ہے۔
 
البتہ بلاوجہ کسی مسلمان پر بدگمانی کرنا مذموم ہے، اس لیے جب تک کوئی خاطر خواہ قرینہ موجود نہ ہو تو کسی مسلمان کے متعلق ایسا تصور کرنا درست نہیں ہے۔ ” درر مباحہ“ میں ہے:
 
وھذا کلہ إذا علم بالقرائن الواضحة، لا مطلق القرینة، لأنہ من سوء الظن المحرم․ (الدرر المباحة في الحظر والإباحة، مطلب في إجابة الدعوة․ ص 9)
 
ترجمہ: ”یہ بات تب ہے جب کسی واضح قرینہ سے اس کی نیت کا پتہ چلے (بغیر کسی تسلی بخش قرینہ کے یہاں احتمال کے درجہ کے) محض قرینہ کا یہاں اعتبار نہیں، کیوں کہ یہ ناجائز بد گمانی کی ایک شکل ہے“۔
 
چھٹی شرط یہ ہے کہ داعی ”طیب نفس“ یعنی دلی رضامندی کے ساتھ دعوت دے رہا ہو۔ یعنی اصل دعوت کا انتظام واہتمام بھی دلی رضا مندی کے ساتھ کیا ہو اور کسی شخص کو بھی ایسی ہی رضامندی کے ساتھ بلائے۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک کام بھی دلی خوشی کے بغیر ہو تو ایسی دعوت کو قبول کرناضروری نہیں ہے، بلکہ جائز ہی نہیں ہے۔ حجتہ الوداع کے موقع پر آپ e نے دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ ایک یہ اعلان بھی فرمایا کہ:
 
اسْمَعُوا مِنِّی تَعِیشُوا، أَلَا لَا تَظْلِمُوا، أَلَا لَا تَظْلِمُوا، أَلَا لَا تَظْلِمُوا، إِنَّہُ لَا یَحِلُّ مَالُ امْرِءٍ إِلَّا بِطِیبٍ نَفْسٍ مِنْہُ․ (مسند أحمد الرسالة، حدیث عم أبي حرة الرقاشي، رقم الحدیث: 20695، ج 34، ص 299)
 
ترجمہ: ”میری بات سنو، تمہیں زندگی گزارنی ہے تو کسی پر ظلم مت کرو، کسی پر ظلم مت کرو، کسی پر ظلم مت کرو، بے شک کسی شخص کا مال اس کی دلی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں“۔
 
مدعو کے لحاظ سے موانع
 
مدعو شخص کے لحاظ سے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ عاقل، بالغ، مسلمان اور آزاد ہو، پہلی تین شرائط تو اس لیے ہیں کہ اس کے بغیر کوئی شخص شرعی احکام کا مکلف ہی نہیں ہوتا اور آزاد ہونے کی شرط اس لیے لگائی گئی کہ غلام شخص اپنی اوقات کا از خود مالک و مختار نہیں ہوتا۔
 
پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ متعین شخص ہو، اگر مجمع عام میں دعوت کا اعلان کیا جائے اور کسی شخص کو متعین طور پر دعوت نہ دی جائے تو اس کا قبول کرنا بھی ضروری معلوم نہیں ہوتا، البتہ مجمع عام کو دعوت دی جائے، لیکن استغراق کے لفظ کے ساتھ، مثال کے طور پر دس افراد کے مجمع کو کہا جائے کہ تم سب کو/ تم میں سے ہر ہر شخص کو میری طرف سے فلاں دن کھانے کی دعوت ہے تو بظاہر سب کی طرف دعوت کا حکم متوجہ ہو گا۔ اس شرط کے متعلق کوئی صریح جزئیہ تو نہیں مل سکا، لیکن بظاہر قواعد سے ایسا مترشح ہوتا ہے کہ متعین طور پر دعوت نہ دینے کی صورت میں کسی کو مدعو نہیں قرار دیا جاتا اور ”اجابت دعوت“ ضروری ہونے کی علت پر غور کرنے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کو متعین طور پر دعوت ملی ہی نہیں ہے، اس کے نہ آنے سے داعی کا دل کیوں کر دکھے گا؟
 
چھٹی شرط یہ ہے کہ اس کو پہلے سے کسی اور نے دعوت نہ دی ہو، اگر پہلے سے کسی نے دعوت دی ہے اور جو وقت مقرر کیا ہے، اس وقت کوئی دوسرا شخص بھی آکر دعوت دیتا ہے تو اس دوسری دعوت کو قبول کرنا کوئی ضروری نہیں ہے، بلکہ ایسی صورت حال میں روایات میں یہی تعلیم دی گئی ہے کہ پہلی دعوت کو قبول کیا جائے۔ ”مسند احمد“ میں ہے:
 
عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ S قَالَ: ”إِذَا اجْتَمَعَ الدَّاعِیَانِ فَأَجِبْ أَقْرَبَہُمَا بَابًا، فَإِنَّ أَقْرَبَہُمَا بَابًا أَقْرَبُہُمَا جِوَارًا، فَإِذَا سَبَقَ أَحَدُہُمَا فَأَجِبِ الَّذِی سَبَقَ“․ (مسند أحمد، ط الرسالة، رقم الحدیث: 23466، ج 38 ص 452)
 
ترجمہ: ”ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی منقول ہے کہ: اگر دو دعوت دینے والے حضرات جمع ہو جائیں (یعنی دو شخص ایک ساتھ دعوت دے دیں اور دعوت کا وقت بھی ایک ہو) جس کا دروازہ نزدیک ہو اس کی دعوت قبول کیجیے، کیوں کہ جس کا گھرنزدیک ہو وہ قریبی پڑوسی ہوتا ہے۔ البتہ اگر کوئی پہلے دعوت دے چکا ہے تو پھر پہلے دعوت دینے والے کی دعوت قبول کیجیے“۔
 
ساتویں شرط یہ ہے کہ مدعو شخص معذور نہ ہو۔ اگر وہ اس حد تک معذور ہو کہ دعوت قبول ہی نہیں کر سکتا یا دعوت قبول کرنے کی صورت میں ناقابل برداشت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہو تو ایسی دعوت کا قبول کرنا بھی ضروری معلوم نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ”تکلیف بشرط استطاعت اور بقدر استطاعت ہوتی ہے“۔
 
اس باب میں عذر کا معیار
 
البتہ یہاں عذر کا معیار کیا ہوگا؟ مثال کے طور پر دعوت قبول کرنے کی صورت میں تکلیف کا سامنا تو ہو، لیکن ناقابل برداشت حد تک تکلیف نہ ہو تو ایسی دعوت قبول کرنے کا کیا حکم ہوگا؟ نیز اس تکلیف و مضرت سے صرف بدنی تکلیف ہی مراد ہے یا مالی خرچ بھی؟ مثال کے طور پر دعوت ایسی جگہ ہے جہاں جانے کے لیے کرایہ وغیرہ کا خرچ آئے گا؟ اس کو بھی عذر سمجھا جائے گا یا نہیں؟ اس کے متعلق کوئی صریح جزئیہ ابھی تک نہیں ملا۔ اہل علم قواعد کی روشنی میں اس پر غور فرمالیں۔
 
البتہ داعی کے لیے مناسب یہی ہے کہ جس شخص کے لیے دعوت قبول کرنا تکلیف کا باعث بن سکتا ہو، اس کو بالکل دعوت نہ دے یا اگر اس کی دل جوئی مقصود ہو تو جزم کے ساتھ دعوت نہ دی جائے، بلکہ ساتھ اختیار بھی دیا جائے۔ اسی طرح جس شخص کو دعوت دی جائے، اس کے لیے بھی مناسب یہی ہے کہ تھوڑی بہت تکلیف کی وجہ سے دعوت کے قبول کرنے میں پس وپیش نہ کرے، بلکہ مسلمان بھائی کی دلی خوشی کے لیے کچھ تکلیف گوارا فرمائے۔ علامہ نحلاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 
ولا ینبغی أن یمتنع عن الإجابة لبعد المسافة، کما لا یمتنع لفقر الداعی، وعدم جاہہ، بل کل مسافة یمکن احتمالہا فی العادة، لا ینبغی أن یمتنع لأجل ذلک․ وینبغی أن لا یدعو من یعلم أنہ یشق علیہ الإجابة، وإذا حضر تأذی بالحاضرین، بسبب من الأسباب…․ (الدرر المباحة في الحظر والإباحة، مطلب في إجابة الدعوة، ص 9)
 
ترجمہ: ”دوری کی وجہ سے یا داعی کی غربت یا کم حیثیت ہونے کی وجہ سے دعوت ٹھکرانا مناسب نہیں، بلکہ جس قدر مسافت عام طور پر قابل برداشت ہو اس حد تک مسافت کی وجہ سے دعوت سے نہ رکے۔ البتہ دعوت دینے والے کو چاہیے کہ ایسے شخص کو دعوت نہ دے جسے قبول کرنے کی صورت میں مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا جس کی حاضری کی وجہ سے حاضرین کو پریشانی لاحق ہوتی ہے“۔
 
دعوت کے لحاظ سے مواقع
 
دعوت کے لحاظ سے بنیادی شرط یہی ہے کہ اس کے قبول کرنے میں کوئی ناجائز امر شامل نہ ہو۔ یہاں ”ناجائز“ کے لفظ سے عام طور پر گانا بجانا اور اس جیسی چیزیں ہی سمجھی جاتی ہیں، لیکن در حقیقت یہ لفظ ان چیزوں سے عام ہے، مثال کے طور پر:
 
الف: دعوت قبول کرنے کی صورت میں کسی ناجائز چیز یا غلط نظریہ کی تائید ہوتی ہو۔
 
ب: بد نظری ہوتی ہو۔
 
ج: حرام مال کھانے اور استعمال کرنے کی نوبت آتی ہو کہ دعوت کا انتظام خالص حرام مال یا ایسے مخلوط آمدنی سے کیا گیا ہو جس کا اکثر حصہ حرام ہو۔
 
د: نماز یا جماعت فوت ہوتی ہو۔
 
یہ سب چیزیں ”ناجائز امر“ میں داخل ہیں اور اگر کہیں کسی دعوت کے قبول کرنے کی صورت میں ان جیسے ناجائز امور کا نوبت آنا یقینی ہو یا اس کا غالب گمان ہو تو ایسی صورت میں ایسی دعوت کو قبول کرنا کوئی ضروری نہیں ہے، بلکہ جائز نہیں ہے۔ یہاں تک کہ حضرات فقہائے کرام نے غیبت کرنے، سننے کو بھی اس باب میں عذر مانع قرار دیا ہے، چناں چہ شامی میں ”فتاویٰ تتارخانیہ“ سے نقل کیا گیا کہ:
 
(قولہ: لا ینبغی أن یقعد) أي یجب علیہ، قال فی الاختیار: لأن استماع اللہو حرام، والإجابة سنة، والامتناع عن الحرام أولی، اھ وکذا إذا کان علی المائدة قوم یغتابون، لا یقعد، فالغیبة أشد من اللہو واللعب․ تتارخانیة“․
 
ترجمہ: ”کسی گناہ کے ہوتے ہوئے دعوت کی جگہ رکنا جائز نہیں، اختیار میں ہے کہ چوں کہ ناجائز چیز کا سننا حرام ہے اور دعوت قبول کرنا سنت ہے تو سنت کے مقابلے میں حرام سے بچنا زیادہ ضروری ہے۔ اگر دستر خواں پر بیٹھے لوگ غیبت میں مبتلا ہو تو بھی وہاں بیٹھنا جائز نہیں، کیوں کہ غیبت گانے سے بھی بڑا گناہ ہے“۔
 
اس بات کی تائید ”سنن ابی داوٴد“ کی درج ذیل روایت سے ہوتی ہے:
 
عن سفینة أبي عبد الرحمن: أن رجلا، أضاف علي بن أبي طالب، فصنع لہ طعاما فقالت فاطمة: لو دعونا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأکل معنا فدعوہ فجاء فوضع یدہ علی عضادتي الباب فرأی القرام قد ضرب بہ في ناحیة البیت فرجع، فقالت فاطمة لعلي: الحقہ فانظر ما رجعہ فتبعتہ فقلت: یا رسول اللّٰہ، ما ردک؟ فقال: ((إنہ لیس لي أو لنبي أن یدخل بیتا مزوقا))․ (سنن أبي داود، کتاب الأطعمة، باب إجابة الدعوة إذا حضرھا مکروہ، ج 3 ص 344)
 
ترجمہ: ”حضرت سفینہt سے مروی ہے کہ: کسی شخص نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مہمان نوازی کر کے کھانا تیار کیا تو حضرت فاطمہ r نے فرمایا کہ: اگر ہم حضور e کو بھی دعوت اور کھانے میں شامل کریں (تو بہتر ہوگا)۔ چناں چہ انہوں نے آپ کو کہلا بھیجا، آپ نے e تشریف لائے، دونوں ہاتھ دروازے کی چوکھٹ پر رکھ کر دیکھا کہ ایک نقشین پردہ گھر کے ایک کونے میں لٹکا ہوا تھا، یہ دیکھ کر آپ e واپس ہوئے، حضرت فاطمہ r نے حضرت علی t سے عرض کیا کہ آپ e کے پاس جا کر معلوم کریں کہ کس وجہ سے آپ واپس ہوئے؟ چناں چہ حضرت علی آپ e کے پاس پہنچ کر پوچھنے لگے یا رسول اللہ (e)! کس چیز نے آپ کو واپس کیا؟ آپ e نے فرمایا کہ: میرے لیے یا کسی نبی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ نقش ونگار والے گھر میں داخل ہو“۔
 
حضور e اس دعوت سے کیوں واپس آگئے؟ اور کیوں دعوت دینے والے کے دعوت کو عملی طور پر مسترد فرمایا؟ محدثین کرام نے اس کی مختلف توجیہات بیان فرمائی ہیں، کسی نے فرمایا کہ اس پردے میں تصویر تھی اور کسی نے اس کے علاوہ بھی توجیہات فرمائی ہیں۔ لیکن بہرحال اس سے واضح ہوتا ہے کہ جہاں دعوت قبول کرنے کی صورت میں کسی ممنوع کام کا ارتکاب کرنا پڑے، اس کو قبول کرنا جائز نہیں ہے۔ یوں ہی دعوت قبول کرنا زیادہ سے زیادہ مسلمان کا حق ہے اور ضابطہ ہے کہ ”خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت بالکل جائز نہیں ہے“۔

مقالات و مضامین سے متعلق