تعارف واہمیت
یہ دور فتنوں کا دور ہے،جہاں طرح طرح کے فتنوں کی بہتات ہے، بسا اوقات فتنوں پر نظر نہ ہونے کی وجہ سے اس جانب پوری طرح توجہ نہیں رہتی، لیکن درحقیقت واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ فتنوں کا ایک تلاطم خیز سیلاب ہے،جوہزاروں لوگوں کو بہاکر لے جارہاہوتاہے، ان فتنوں کی جڑوں کا باریک بینی کے سا تھ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ ”اہل کفر کی شان وشوکت اور ان کا تفوّق“ایک بنیادی سرچشمہ ہے، جہاں سے بیسیوں قسم کے فتنے پھوٹتے محسوس ہوتے ہیں،اسی کو ”جدت پسندی“ اور ”مغربیت“ سے بھی تعبیر کیاجاتاہے، اسی عظیم فتنے سے بچنے کا ایک آسان اور مفید راستہ ”اتّباع سلف“ہے، جس کو ”قدامت پسندی“اور”رجعت پسندی “سے بھی تعبیر کیاجاتاہے۔ یہاں اسی کے متعلق چند ضروری باتیں سپرد قرطاس کی جاتی ہیں، ممکن ہے کہ کسی شخص کی ہدایت اور رہ نمائی کا باعث ثابت ہو۔
قرآن کریم کی روشنی میں اتباع سلف کی اہمیت
قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:﴿وَمَنْ یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء َتْ مَصِیرًا﴾․ (سورة النساء:115)
ترجمہ:اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور سب مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھرگیاہے اور اسے دوزح میں ڈال دیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
غیر مسلم افراد اور ان کے طور وطریقوں کے بارے میں دور اول کے مسلمانوں نے جو تعامل اختیار فرمایاتھا ،وہ بعد وبغض کاتھا، دلی طور پر اس کو غلط، قابلِ نفرت اور مذموم خیال کرتے تھے اورعملی طور پران سے خود بھی دور رہنے کی کوشش کرتے تھے اور لوگوں کو بھی اس کے گرداب میں پھنسنے سے روکا کرتے تھے، قرآن وحدیث سے بھی ان کی یہی رہ نمائی ہوتی تھی۔ اس لیے اس دور میں بھی مسلمانوں کے راستے پر چلنے کی صورت یہی ہے کہ دیار کفر کی جانب سے آنے والے رسوم اور وہاں سے درآمد یا متاثر ہونے والی تہذیب وثقافت کو دور پھینکا جائے،نہ صرف عملی طور پر ان سے دور رہاجائے، بلکہ نظریاتی اور فکری لحاظ سے بھی اس سے دور رہنے اور دور رکھنے کی بھر پور کوشش کی جاتی رہے۔
سورة حشر میں ارشاد خداوندی ہے:
﴿وَالَّذِینَ جَاء ُوا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالْإِیمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّکَ رَء ُوفٌ رَحِیمٌ﴾․(سورة الحشر:10)
ترجمہ:اور ان کے لیے بھی جو مہاجرین کے بعد آئے (اور) دعا مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان داروں کی طرف سے کینہ قائم نہ ہونے پائے۔ اے ہمارے رب! بے شک تو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے۔
اس آیت سے مسلمانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ ان لوگوں سے کوئی دلی بعد یانفرت بالکل نہ رکھے جو ان سے پہلے ایمان لائے تھے، بلکہ اپنے ساتھ ان کے لیے بھی مغفرت کی دعا کرتے رہے۔مغفرت کی دعا سے محبت ا ورپھر اعتماد کا رشتہ مضبوط ہوجاتاہے۔
آثار وروایات کی روشنی میں
اتباع سلف کی اہمیت تو دسیوں نصوص وآثار سے واضح ہوتی ہے،یہاں نمونے کے طورپرچند کوذکر کیاجاتاہے۔
”سنن ترمذی “میں ہے کہ کچھ لوگوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حجاج بن یوسف کے مظالم کی شکایت کی ،آپ نے فرمایا:
”ما من عام إلا والذی بعدہ شر منہ حتی تلقوا ربکم، سمعت ہذا من نبیکم صلی اللہ علیہ وسلم.( سنن الترمذی، ت بشار،أبواب الفتن عن رسول اللہ ا ،باب منہ:4/62)
حضرت انس رضی اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے سنا،ہرآنے والاسال پہلے سال سے بدترہوتاجائے گایہاں تک کہ قیامت آجاے گی“۔
”سنن دارمی“میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
”اتَّبِعُوا وَلَا تَبْتَدِعُوا، فَقَدْ کُفِیتُمْ“.(سنن الدارمی،باب فی کراہیة أخذ الرأی،:1/288)
ترجمہ:تم (سنت کی )پیروی کرتے رہواوردین میں نئی باتیں ایجاد مت کرو،تمہارے لیے یہ دین کافی ہے۔
علامہ ابن وضاح قرطبی آپ ہی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍقَالَ: اتَّبِعُواآثَارَنَاوَلَاتَبْتَدِعُوا؛ فَقَدْکُفِیتُمْ“․(البدع لابن وضاح،باب ما یکون بدعة:1/36)
ترجمہ:عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:ہماری راہ کی پیروی کرتے رہو،کسی نئی راہ کواختیار مت کرو،تمہارے لیے یہ کافی ہے۔
علامہ ابن وضاح رحمہ اللہ کی اسی کتاب میں ہے کہ کچھ لوگوں نے ذکر وتسبیح کرنے کا ایک نیا طرز شروع کیا، حضرت ابن مسعود نے خود جاکر وہاں ان پر نکیر فرمائی اور پھر ارشاد فرمایا:
”وَالَّذِی نَفْسُ ابْنِ مَسْعُودٍ بِیَدِہِ لَئِنْ أَخَذْتُمْ آثَارَ الْقَوْمِ لَیَسْبِقُنَّکُمْ سَبْقًا بَعِیدًا وَلَئِنْ حُرْتُمْ یَمِینًا وَشِمَالًا لَتَضِلُّنَّ ضَلَالًا بَعِیدًا.( البدع لابن وضاح،باب ما یکون بدعة:1/36)
ترجمہ:اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں ابن مسعودکی روح ہے!اگرتم نے سلف کادامن مضبوطی سے پکڑاتوتم بہت آگے بڑھ جاؤگے اوراگردائیں،بائیں پھرے تو سخت گم راہ ہوجاؤگے۔
حضرت قاضی شریح رحمہ اللہ سے نقل ہے کہ آپ نے فرمایا:
”إن السنة سبقت قیاسکم فاتبعوا، ولا تبتدعوا، فإنکم لن تضلوا ما أخذتم بالأثر.( جامع بیان العلم وفضلہ،باب ما جاء فی ذم القول فی دین اللہ تعالی بالرأی والظن والقیاس علی غیر أصل، وعیب الإکثار من المسائل دون اعتبار:2/1050)
ترجمہ:بے شک سنت قیاس پرمقدم ہے، لہٰذاسنت کی پیروی کرتے رہو، بدعت اختیار نہ کرو،کیوں کہ جب تک تم حدیث پرعمل کرتے رہو گے، کبھی بھی گم راہ نہ ہوں گے۔
سلف کی صفات وعادات
حضرات سلف صالحین اپنی استطاعت کے مطابق تمام چیزوں کی طرح صفات وعادات میں بھی آپصلی الله علیہ وسلم کی اتباع کرنے کی پوری کوشش فرمایاکرتے تھے اور بڑی حد تک وہ اس میں کام یاب بھی رہے، تاہم ان کی نمایاں صفات وہ ہیں جو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ایک ارشاد میں ذکر فرمائی گئی ہیں، ”جمع الفوائد“میں ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
”من کانَ مستنًا فلیستنّ بمن قد ماتَ، فإن الحیَّ لا یؤمنُ علیہ الفتنةُ، أولئک أصحابُ محمدٍ – صلی اللہ علیہ وسلم – کانوا أفضلَ ہذہ الأمةِ: أبرَّہَا قلوبًا، وأعمَقَہا علمًا، وأقلَّہا تکلفًا، اختارہم اللہ لصحبةِ نبیہ – صلی اللہ علیہ وسلم -، ولإقامةِ دینہِ، فاعرفوا لہم فضلہمُ۔ واتبعوہم علی أثرِہِم، وتمسکوا بما استطعتُمْ بہ من أخلاقہِم وسیرہم، فإنہم کانوا علی الہدی المستقیمِ.( جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزوائد،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة:1/30)
ترجمہ:جواقتدا کرناچاہے وہ ان کی اقتدا کرلے جوفوت ہوگئے، کیوں کہ زندہ فتنوں سے محفوظ نہیں،یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے سا تھی ہیں جواس امت کے افضل ترین لوگ ہیں،جن کے دل انتہائی نیک ،علم بہت اونچااورتکلف بہت کم تھا،جنہیں اللہ تعالیٰ نے آپصلی الله علیہ وسلم کی صحبت،دین کی اقامت کے لیے منتخب فرمایا،لہٰذاان کی فضیلت جان کران کی پیروی کرو،اپنی استطاعت کے مطابق ان کے اخلاق وعادات کواپنالو، کیوں کہ وہ صحیح راستے پر قائم تھے۔
یوں تو حضرات صحابہ کرام اور سلف صالحین کی راہ پر چلتے رہنے کی اہمیت اور ان کے حقیقی مقام ومرتبہ سے متعلق یہ قول ایک جامع متن کی حیثیت رکھتا ہے، جس سے اس سلسلہ میں پوری پوری رہ نمائی حاصل کی جاسکتی ہے، تاہم موضوع کی مناسبت سے یہاں حضرات صحابہ کرام کی تین صفات وعادات ذکر فرمائی گئی ہیں ،ان صفات کی بنا پر ان کو اس امت کا افضل ترین طبقہ شمار فرمایاگیا ہے اور پھر ان کی تابع داری کرتے رہنے کی تلقین وترغیب دی گئی ہے۔وہ تین صفات یہ ہے کہ وہ پاک دل تھے، عمیق علم رکھتے تھے، زیادہ تکلف کے عادی نہ تھے۔
غور کیاجائے تو ضلال وگم راہی یا تو باطنی برائی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے یا علمی گہرائی کے فقدان کی وجہ سے اور یا تکلف پر مبنی مزاج ومذاق کی وجہ سے۔ حضرات سلف صالحین کے ہاں انسانی حد تک یہ تینوں بنیادیں موجود نہ تھیں ،اس لیے ان کے گم راہ ہونے کے امکانات بھی کم سے کم تر تھے، لہٰذا دیگر لوگوں کی بنسبت حضرات سلف ہی اس قابل ہیں کہ ان کی اتباع کی جاتی رہے ،ان کے طرز وڈھنگ کو اختیار کیاجاتارہے،انہی کی صفات وعادات کو اپنانے کی کوشش کی جائے۔
سلف کی خصوصیات :امام الحرمین کی نظر میں
حضرات صحابہ کرام کی جماعت کے بارے میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جو تین صفات بیان فرمائی ہیں، فکری اورعملی زیغ وگم راہی سے بچنے میں یہ حفاظتی حصار کے مانند کردار ادا کرتی ہیں، ان کے ضمن میں متعدد صفات وعادات داخل ہوجاتی ہیں، حضرت امام الحرمین رحمہ اللہ سیاست وحکومت کے موضوع پر اپنی مشہور کتاب”غیاث الامم“میں ذکر کرتے ہیں کہ امام/حکومت کے لیے اس بات کی (خوب)حرص کرلینی چاہیے کہ تمام لوگوں کو سلف صالحین کے مذاہب (اوران کے عادات واطوار) پر چلاتارہے، ایسا ماحول تشکیل دے جس میں لوگوں کی اس نہج پر تربیت کااہتمام وانتظام ہو، اس کے بعد آپ نے کچھ تفصیل کے ساتھ حضرات سلف صالحین کی صفات وعادات ذکر فرمائی ہیں، فرماتے ہیں:
”وَالَّذِی أَذْکُرُہُ الْآنَ لَائِقًا بِمَقْصُودِ ہَذَا الْکِتَابِ أَنَّ الَّذِی یَحْرِصُ الْإِمَامُ عَلَیْہِ جَمْعُ حَسَبِ الِاسْتِطَاعَةِ.
ترجمہ:اس کتاب کے مقصودسے جوبات مناسب ہے وہ یہ کہ امام کے لیے تمام لوگوں کوسلف کے مذاہب پرخواہشات کے ظہوراورافکار کی گم راہی میں پڑنے سے پہلے جمع کرناہے،چناں چہ حضرات صحابہ رضی الله عنہم کی عادت یہ تھی کہ وہمشکلات اورباریکیوں میں سوچ وفکر اوراس کی طرف تعرض کرنے اوراس میں پڑنے،شبہات کوجمع کرنے، اسی طرح نت نئے سوالات سے بتکلف جواب دینے سے منع فرمایاکرتے اوروہ اپنی طاقت کونیکی وتقوی،تکلیف کودورکرنے اوراپنی وسعت کے مطابق اطاعت پرتیزکرنے کی طرف پھیرتے۔
کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ جن باتوں کی طرف حضرات متاخرین نے تعرّض فرمایاہے، شاید متقدمین حضرات نے علمی یا عملی کم زوری وغیرہ کی بنیاد پر اس سے تعرض نہ فرمایا ہو،اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
ترجمہ:ایسی بات نہیں کہ متقدمین نے کم زوری وکوتاہی یاطبیعت میں سستی کی وجہ سے ان باتوں کی طرف تعرض نہیں فرمایا،جن کی طرف متاخرین نے فرمایا،متقدمین تومخلوق میں سب سے ذہین ترین اوربہتر بیان کرنے والے تھے،لیکن وہ جانتے تھے کہ شبہات میں پڑھناگم راہیوں کادروازہ کھولناہے تووہ سادہ مسلمانوں کی خاطران باتوں سے گریزکرتے جن میں آج وہ مبتلاہیں،اگرعوام کا اس پرابھارنا ممکن ہو توبہت بہترہے ٓآپ صلی الله علیہ وسلم کاارشاد ہے:”میری امت تہتر(73)فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی جن میں نجات پانے و الا صرف ایک فرقہ ہوگا“موجود حاضرین نے اس فرقہ ناجی کی صفت دریافت کی چناں چہ فرمایا:یہ وہ لوگ ہیں جواس پرقائم ہیں جس پرمیں اورمیرے صحابہ قائم ہیں۔ہم اپنی عقل کے ذریعے قطعی طورپرجانتے ہیں کہ وہ باریکیوں اورحقائق میں زیادہ غوروخوض نہیں کرتے اورنہ اس کی طرف کوئی سبب اختیارفرماتے تھے بلکہ اس شخص پرسختی فرماتے تھے جواس میں غوروخوض کرتا تھا۔
اس کے دو تین سطر بعد تحریر فرماتے ہیں:
فَلْیَجْعَلِ الْإِمَامُ مَا وَصَفْنَاہُ الْآنَ أَکْبَرَ ہَمِّہِ ; فَہُوَ مَحْسَمَةُ الْفِتَنِ، وَمَدْعَاةٌ إِلَی اسْتِدَادِ الْعَوَامِّ عَلَی مَمَرِّ الزَّمَنِ.( غیاث الأمم فی التیاث الظلم، الرکن الأول کتاب الإمامة:190)
ترجمہ:”لہٰذاہم نے اوپر جوبات ذکرکی امام اسے اپنے اہم مقاصدمیں سے گردانے جوفتنوں کی بیخ کنی اورعوام کوہمیشہ کے لیے درست اورسیدھارکھناکاذریعہ ہے“۔
اس سے واضح ہوجاتاہے کہ امت کو متنوع فتنوں سے بچانے کا محفوظ اوربے خطر راستہ یہی ہے کہ اتّباع سلف کا ماحول بنایاجائے، امت کی اسی کے مطابق تربیت کی جائے، سلف کی عادات واخلاق کو اجاگر کرنے اورمعاشرے میں ان کی تخم ریزی کرنے کی ضرورت ہے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیماری کی حالت میں جو آخری خطبہ ارشاد فرمایاتھا، اس میں یہ بھی فرمایاتھاکہ:
”إِنَّ ہَذَا الْأَمْرَ الَّذِی ہُوَ أَمْلَکُ بِنَا لَا یَصْلُحُ آخِرُہُ إِلَّا بِمَا صَلُحَ أَوَّلُہُ.( تاریخ المدینة لابن شبة:2/667)
ترجمہ:”یہ چیزجوہمارے لیے بہت مناسب ہے،اس کااول جس طریقے سے درست ہواہے اس کاآخراس طریقے کے بغیر درست نہیں ہوسکتا“۔
سلف کو خطاوارٹھہرانا
درج بالا تفصیلات کی بنیاد پر محقّق اہل علم کا یہ موقف رہاہے اورمتعدد حضرات نے اس کی صراحت بھی فرمائی ہے کہ دینی وشرعی مسائل میں حضرات سلف صالحین کی تغلیط کرنا درست ہے، نہ ہی ان کی تضلیل یا تجہیل کرنے کی گنجائش ہے،قیاس کی حجیت کے انکار کرنے والے بعض لوگوں نے سلف پر کچھ طعن کیا،اس کا ذکر کرتے ہوئے امام سرخسی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
”فَأَما من طعن فِی السّلف من نفاة الْقیَاس لاحتجاجہم بِالرَّأْیِ فِی الْأَحْکَام فَکَلَامہ کَمَا قَالَ اللہ تَعَالَی ﴿کَبرت کلمة تخرج من أَفْوَاہہم إِن یَقُولُونَ إِلَّا کذبا﴾.(أصول السرخسی،فصل فی حدوث الخلاف بعد الإجماع باعتبار معنی حادث:2/133)
ترجمہ:قیاس کے منکرین میں سے جوشخص سلف پرجو یہ طعن کرے کہ وہ احکام میں رائے کے ذریعے دلیل پکڑتے تھے،تواس کاقول ایساہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاہے”کیسی سخت بات ہے جو ان کے منھ سے نکلتی ہے وہ لوگ بالکل جھوٹ کہتے ہیں“۔
علامہ ابن عبد الہادی مرحوم فرماتے ہیں:
ولا یجوز إحداث تأویل فی آیة أو سنة لم یکن علی عہد السلف ولا عرفوہ ولا بینوہ للأمة، فإن ہذا یتضمن أنہم جہلوا الحق فی ہذا وضلوا عنہ، واہتدی إلیہ ہذا المعترض المستأخر، فکیف إذا کان التأویل یخالف تأویلہم ویناقضہ؟! (الصارم المنکی فی الرد علی السبکی،مقدمة المؤلف،الباب الخامس فی تقریر کون الزیارة قربة وذلک بالکتاب والسنة والإجماع والقیاس:318)
ترجمہ:”آیت وسنت میں ایسی تاویل کرناجوسلف نے امت کونہ بیان کی ہو،نہ وہ اسے جانتے ہوں اورنہ وہ ان کے زمانے میں موجودہو، جائز نہیں۔ کیوں کہ یہ اس بات کاتقاضا ہے کہ وہ اس بارے میں حق سے ناواقف اوربے خبرتھے،جس کواس بعد والے معترض کادماغ پہنچا، تواس کاکیاحال ہوگاجب تاویل ان کی تاویل کی بالکل مخالف اورتوڑنے والی ہو؟“
اتباع سلف کی ضرورت
مشہور مالکی فقیہ علامہ ابن ابی زید القیروانی فرماتے ہیں
کہ سنت کوتسلیم کرنارائے اورقیاس کے کوئی معارض نہیں، جوتاویل ان میں سے سلف صالحین نے کی ہیں وہ تاویل ہم بھی کرتے ہیں،جس پرانہوں نے عمل کیااس پرہم بھی عمل کرتے ہیں اورجوچھوڑاوہ ہم چھوڑتے ہیں۔ ہمارے لیے کافی ہے کہ ہم ان چیزوں سے رُکیں جن سے وہ رُکے اورجوانہوں نے بیان فرمایااس کی اتباع کریں ،ان کی اقتداء کریں جوانہوں نے مستنبط کیے اورنئے مسائل میں نقل فرمائے اوران کی جماعت سے ان باتوں کی وجہ سے نہیں نکلتے جن میں انہوں نے اختلاف کیاہویااس کی تاویل میں۔ہم نے ماقبل میں جوباتیں ذکرکیں تویہ اہل سنت اورفقہ وحدیث میں لوگوں کے ائمہ کاقول ہے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز کا زریں قول
یہی علامہ قیروانی رحمہ اللہ ،امام مالک رحمہ اللہ کے حوالہ سے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ رحمہ الله نے ارشاد فرمایا:
کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اورآپ کے بعد حکام نے ایسے طریقے بتائے ہیں،جن پرچلنے والاکتا ب اللہ کی تصدیق کرتاہے،اللہ کی اطاعت اوردین پرمضبوطی حاصل کرتاہے، کسی کے لیے ان کوبدلناجائزنہیں اورنہ اس میں ایسی نظرکرناجواس کے مخالف ہو،اس پرچلنے والاہدایت یافتہ ہے اور اس کے ذریعے مددحاصل کرنے والامنصورہے،جواسے چھوڑ کرمومنوں کے راستے کے خلاف چلاتواللہ اسے اس طرف پھیردے گاجس طرف وہ خود کو پھیرے اوراسے جہنم میں داخل کردے گا جوبہت برا ٹھکاناہے۔(الجامع فی السنن والآداب والمغازی والتاریخ،باب ذکر السنن التی خلافہا البدع وذکر الاقتداء والإتباع وشیء من فضل الصحابة ومجانبة أہل البدع:117)
امام طحاوی رحمہ اللہ عقائد پر مشتمل اپنے مختصر متن میں تحریر فرماتے ہیں:
وَعُلَمَاء ُ السَّلَفِ مِنَ السَّابِقِینَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنَ التَّابِعِینَ أَہْلِ الْخَیْرِ وَالْأَثَرِ وَأَہْلِ الْفِقْہِ وَالنَّظَرِ لَا یُذْکَرُونَ إِلَّا بِالْجَمِیلِ، وَمَنْ ذَکَرَہُمْ بِسُوء ٍ فہو علی غیر السبیل.(متن الطحاویة:82)
ترجمہ:سلف صالحین اور ان کے بعدتابعین جواہل حدیث واہل فقہ ہیں ،ان کاذکرِخیرہی کیاجائے گااورجوان کے بارے میں بدگوئی کرے گاوہ گم راہ ہوگا۔
فقہائے شافعیہ کے اصول فقہ کے متن”جمع الجوامع“اورا س کی شرح میں ہے:
(و) نری (أن الشافعی) إمامنا (ومالکا) شیخہ (وأبا حنیفة والسفیانین) الثوری وابن عیینة (وأحمد) بن حنبل (والأوزاعی وإسحاق) بن راہویہ (وداود) الظاہری (وسائر أئمة المسلمین) أی باقیہم (علی ہدی من ربہم) فی العقائد وغیرہا، ولا التفات لمن تکلم فیہم بما ہم بریئون منہ.(حاشیة العطار علی شرح الجلال المحلی علی جمع الجوامع،الکتاب السابع فی الاجتہاد،التقلید فی أصول الدین:2/491)
ترجمہ:ہم امام شافعی کواپناامام ،امام مالک کوان کااستاذ،ابوحنیفہ اورسفیان ثوری،سفیان ابن عیینہ ،احمدابن حنبل ،اوزاعی،اسحاق بن راہویہ، داؤدظاہری اورسب ائمہ رحمہم اللہ رحمة واسعةکوعقائدوغیرہ میں اللہ کی طرف سے ہدایت پرسمجھتے ہیں،جوان کے بارے میں ایسی بات کہے جوان میں موجودنہ ہواس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔
غلط فہمی :کیا اتباع سلف حجت ہے؟
اس پر یہ اشکال نہ کیاجائے کہ شریعت کے دلائل تو چار ہیں،ان میں اتباع سلف داخل نہیں ہے تو کیوں اس پر اس قدر زور دیا جاتا ہے اور متنوع طریقے سے اس کی اہمیت جتائی جارہی ہے؟جواب یہ ہے کہ قطع نظر اس بات سے کہ اتباع سلف ان چار میں سے کسی ایک کے ضمن میں داخل ہے یانہیں، یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایک کسی چیز کا حجت ہونا ہے اور ایک کسی چیز کا حق کے مطابق ہونا ہے، دونوں میں فرق ہے، پہلی صورت میں متعلقہ چیز حقانیت کی دلیل اور اس کا موجب بن جاتی ہے، جب کہ دوسری صورت میں اس کی ایک حیثیت ایک علامت اور نشانی کی سی ہوتی ہے،اتباع سلف کی اہمیت کی حیثیت بھی یہی دوسری ہے۔ فنی طور پر اس کو یوں بھی تعبیر کیاجاسکتاہے کہ اتباع سلف کسی چیز کے حق ہونے کی دلیل لمی تو نہیں ہے، البتہ دلیل انی ہے۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب․